اعتکاف کے مسائل



اعتکاف کی فضیلت :مسجدِ جماعت میں اللہ کے لئے نیت کے ساتھ ٹھہرنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ ہر سال رمضان کےآ خر دس دن خود مسجد میں اعتکاف فر مایا کرتے تھے اورآپ ﷺ نے اس کی بڑی فضیلتیں بیان فر مائی ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺ نے معتکف کے بارے میں فر مایا کہ:وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے کہ اس نے تمام نیکیاں کیں۔ [ابن ماجہ،حدیث:۱۷۸۱]۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جس نے رمضان المبارک میں دس دنوں کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے ادا کیا۔[شعب الایمان للبیہقی،باب فی الاعتکاف،حدیث:۳۹۶۶]۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص الله کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، الله تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔[طبرانی، المعجم الاوسط،حدیث:۷۳۲۶ ]
مسئلہ:اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔(۱)اعتکاف واجب ۔جیسے کسی نے منت مانی کہ میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا تو اب اس پر واجب ہے کہ وہ اعتکاف کرے ۔(۲)اعتکاف سنت ۔رمضان المبارک کے آخر دس دن کا اعتکاف کرنا سنت ہے ۔(۳)ان دونوں کے علاوہ جو اعتکاف کیا جائے مثلا ایک دن کا یا دو دن کا وہ نفل اور مستحسن ہے ۔
مسئلہ:اعتکاف کرنے والے کے لئے حاجت طبعی کے سوا اور کسی وجہ سے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان فر مایا کہ:اعتکاف کرنے والا مریض کی عیادت کو جائے نہ جنازہ میں حاضر ہو نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ اس سے مبا شرت کرے نہ کسی حاجت کے لئے جائے مگر اس حاجت کے لئے جو ضروری ہے(یعنی پا خانہ پیشاب کے لئے)۔(سنن ابو داود،حدیث: ۲۴۷۳)
مسئلہ:معتکف کے علاوہ مسجد میں کسی اور کے لئے کھانا پینا جائز نہیں ۔(رد المحتار)
مسئلہ:اعتکاف کرنے والوں کو چا ہئے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن شریف کی تلاوت،حدیث شریف کی قرأت ،درود شریف کی کثرت،علم دین کا درس و تدریس اور اس کے علاوہ دیگر عبادت و ریا ضت کرتے رہیں۔
مسئلہ:بلاعذر مسجد سے باہر نکلنا،حالت اعتکاف میں مباشرت کرنا،عورت اعتکاف میں ہو تو حیض ونفاس کا جاری ہونا،کسی عذر کی وجہ سے مسجد سے نکل کر ضرورت سے زیادہ ٹھہرنا، ان سب صورتوں میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ:اعتکاف سنت وواجب میں روزہ شرط ہے،اِس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے۔ خواہ یہ روزہ کسی عذرسے توڑا ہو یا بلاعذر،جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹاہو،ہرصورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔
مسئلہ:فنائے مسجد یعنی وہ جگہیں جو مسجد کی ضروریات کے لئے مسجد کے احاطے کے اندر ہوں جیسے وضو خانہ،غسل خانہ وغیرہ ان جگہوں پر بلاضرورت بھی جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔
مسئلہ:معتکف بحالتِ مجبوری ایک مسجد سے دوسری میں منتقل ہو سکتا ہے۔ مثلاً جس مسجد میں اعتکاف شروع کیا ہو وہاں جان و مال کا خطرہ لاحق ہو جائے یا مسجد منہدم جائے تو ایسی صورت میں اس مسجد سے نکل کر فوراً کسی نزدیکی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے چلے جانا چاہئے۔
مسئلہ:خواتین بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ حضور ﷺ کی اَزواجِ مطہرات بھی اعتکاف ب میں بیٹھا کرتی تھیں جیسا کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ الله تعالیٰ کے حکم سے آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے۔ [بخاری، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الاواخر والاعتکاف في المساجد، حدیث:۱۹۲۲]
مسئلہ:عورت اپنے گھر میں جو جگہ نماز کے لئے مخصوص کی ہے اسی میں اعتکاف کرے۔ اس جگہ کو ’’مسجد البیت‘‘ کہا جاتا ہے۔اور اگر پہلے سے کوئی جگہ مخصوص نہیں ہے تو اب کر لیں۔
مسئلہ:رمضان المبارک میں معتکف یا معتکفہ (مرد یا عورت) کا کسی عذر کی وجہ سے مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے، مثلًا ضرورت سے زائد اعتکاف گاہ سے باہر رہے یا معتکفہ (عورت) کو حیض آجائے یا نفاس (بچے کی پیدائش) ہو جائے یا کوئی اور بیماری یا تکلیف لاحق ہو جائے تو جتنے دن کا اعتکاف رہ جائے، اور رمضان المبارک کے روزے بھی اتنے ہی ہوں تو عید کے بعد جب رمضان کے روزوں کی قضا کرے تو اعتکاف کی بھی قضا کر لے۔ اگر قضائے رمضان کے ساتھ اعتکاف نہیں کیا تو بعد میں نفلی روزے رکھ کر اعتکاف پورا کرے۔
مسئلہ:اگر نفلی اعتکاف چھوڑ دے تو اس کی قضا واجب نہیں لیکن اگر مسنون اعتکاف جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے، اسے توڑا تو جس دن توڑا اُسی سے آگے بقیہ دنوں کی قضا کرے۔ پورے دس دنوں کی قضاء واجب نہیں۔ اگر واجب یعنی منت کا اعتکاف چھوڑا تو اگر وہ کسی معین مہینے کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضا کرے۔ لیکن اگر مسلسل (علی الاتصال) اعتکاف کرنے کی نیت کی تھی تو نئے سرے سے اعتکاف کرے اور اگر علی الاتصال اعتکاف کرنے کی نذر نہیں مانی تھی تو باقی دنوں کا اعتکاف کرے۔
مسئلہ:اعتکاف کے دوران ایسی بیماری لاحق ہو جائے جس کا علاج اعتکاف گاہ سے باہر جائے بغیر ممکن نہ ہو،یاوالدین، بیوی بچوں یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو کوئی شدید مرض لاحق ہو جائے یا کوئی حادثہ پیش آجائے اور گھر میں کوئی دوسرا تیمارداری کرنے والا موجود نہ ہو۔ یاوالدین، بہن، بھائی یا کوئی عزیز اچانک فوت ہو جائے تو ان سب صورتوں میں اعتکاف توڑ دینا جائز ہے اسی طرح اگر کسی معتکف کو کوئی زبردستی مسجد سے نکال دے یا حکومت اعتکاف میں گرفتار کر لے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا مگر اس صورت میں معتکف پر اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا۔



متعلقہ عناوین



عظمتِ رمضان روزہ کی اہمیت وفضیلت روزہ کی نیت کے مسائل روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتاہے؟ روزہ کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا ہے؟ روزہ کن چیزوں سے مکروہ ہو جاتاہے؟ کن صورتوں میں صرف قضا ہے؟ کن صورتوں میں قضا اور کفارہ دونوں ہے؟ روزہ میں کن لوگوں کے لئے رخصت ہے؟ روزہ کے فدیہ کے مسائل سحری وافطاری کے مسائل شب قدر کا بیان نفلی روزوں کا بیان



دعوت قرآن