سُوال: اِحرام کی حالت میں عِطْر کی شیشی ہاتھ میں لی اور ہاتھ میں خوشبو لگ گئی تو کیا کَفّارہ ہے؟
جواب: اگر لوگ دیکھ کرکہیں کہ یہ بَہُت سی خوشبو لگ گئی ہے اگرچِہ عُضْو کے تھوڑے سے حصّے میں لگی ہو تو دَم واجِب ہے ورنہ معمولی سی خوشبو بھی لگ گئی تو صَدَقہ ہے۔ ( ماخوذ ازبہارِ شریعت ، ج۱ ، ص۱۱۶۳)
سُوال: سَر میں خوشبودار تیل ڈال لیا توکیا کرے؟
جواب: اگر کوئی بڑاعُضْو مَثَلاً ران ، مُنہ ، پنڈلی یاسَر سارے کا سارا خوشبوسے آلودہ ہوجائے خواہ خوشبودار تیل کے ذَرِیعے ہو یا عِطْر سے ، دَم واجِب ہوجائے گا۔ (ایضاً)
سُوال: بِچھونے یا اِحرام کے کپڑے پر خوشبو لگ گئی یا کسی نے لگا دی تو؟
جواب: خوشبو کی مقدار دیکھی جائے گی ، زیادہ ہے تو دَم اور کم ہے تو صَدَقہ۔
سُوال: جوکَمرہ رہائش کیلئے مِلا اُس میں کارپیٹ ، بچھونا ، تکیہ ، چادر وغیرہ خوشبودارہوں تو کیا کرے؟
جواب: مُحرِم ان چیزوں کے استِعمال سے بچے۔ اگر احتیاط نہ کی اور اِن سے خوشبو چھوٹ کربدن یا اِحرام پر لگ گئی تو زیادہ ہونے کی صورت میں دم اور کم میں صَدَقہ واجِب ہو گا۔ اور اگر نہ لگے تو کوئی کَفّارہ نہیں مگر اِس صورت میں بچنا بہتر ہے۔ مُحرِم کو چاہئے مکان والے سے مُتَبادِل انتظام کا کہے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرش اور بچھونے وغیرہ پرکوئی بے خوشبو چادر بچھا لے ، تکیے کا غِلاف تبدیل کرلے یا اُسے کسی بے خوشبو چادر میں لپیٹ لے۔
سُوال: جوخوشبو نیَّتِ اِحرام سے پہلے بدن پر لگائی تھی کیا نیَّتِ اِحرام کے بعد اُس خوشبو کو زائل (دُور) کرنا ضَروری ہے؟
جواب: نہیں ، صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اِحرام سے پہلے بدن پر خوشبو لگائی تھی ، اِحرام کے بعد پھیل کر اور اعضا کو لگی تو کفّارہ نہیں ۔ (بہارِ شریعت ، ج ۱ ، ص۱۱۶۳)
سُوال: احرام کی نیّت سے پہلے گلے میں جو بیگ تھا اُس میں یا بیلٹ کی جَیب میں عِطْر کی شیشی تھی ، نیّت کے بعد یاد آنے پر اُسے نکالنا ضَروری ہے یا رہنے دیں ؟ اگر اِسی شیشی کی خوشبو ہاتھ میں لگ گئی تب بھی کفّارہ ہو گا ؟
جواب: احرام کی نیّت کے بعد وہ عطر کی شیشی بیگ یا بیلٹ سے نکالنا ضَروری نہیں اور بعد میں اُس شیشی کی خوشبو ہاتھ وغیرہ پر لگ گئی تو کفّارہ لازم آئے گا ، کیونکہ یہ وہ خوشبو نہیں جو احرام کی نیّت سے پہلے کپڑے یا بدن پر لگائی گئی ہو۔
سُوال: گلے میں نیّت سے پہلے جو بیگ پہنا وہ خوشبو دار تھا ، نیز اس کے اندر خوشبو دار رُومال یا خوشبو والی طواف کی تسبیح وغیرہ بھی موجود ، ان کامُحرِم استِعمال کر سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: ان چیزوں کی خوشبو قصداً (یعنی جان بوجھ کر) سونگھنا مکروہ ہے اور اس احتیاط کے ساتھ استِعمال کی اِجازت ہے کہ اگر اس کی تری باقی ہے تو اتر کر احرام اور بدن کو نہ لگے لیکن ظاہر ہے کہ تسبیح میں ایسی احتیاط کرنا نہایت مشکل ہے بلکہ رومال میں بھی بچنا مشکل ہے۔ لہٰذا ان کے استعمال سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
سُوال: اگر دو تین زائد خوشبو دار چادریں نیّت سے قبل گود میں رکھ لے یا اَوڑھ لے اب احرام کی نیّت کرے۔ نیّت کے بعد زائد چادریں ہٹا دے ، اُسی احرام کی حالت میں اب اُن چادروں کا استِعمال کرناکیسا؟
جواب: اگر تری باقی ہے تو ان کو استِعمال کی اجازت نہیں اور اگر تری ختم ہوچکی ہے صِرْف خوشبو باقی ہے تو استِعمال کی اِجازت ہے مگر مکروہِ (تنزیہی ) ہے۔ صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگر اِحرام سے پہلے بسایا (یعنی خوشبو دار کیا) تھا اور احرام میں پہنا تو مکروہ ہے مگر کفارہ نہیں ‘‘ (ایضاً ، ص ۱۱۶۵ )
سُوال: اِحتِلام ہوگیا یا کسی وجہ سے اِحْرام کی ایک یا دونوں چادریں ناپاک ہوگئیں اب دوسری چادریں موجود تو ہیں مگر اُن میں پہلے کی خوشبو لگی ہوئی ہے ، اُنھیں پہن سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: اگر خوشبو کی تری یا جِرم (یعنی عَین۔جسم) ابھی تک باقی ہے تو ان چادروں کو پہننے سے کفارہ لازم آئے گا ۔ اور اگرجِرم ختم ہو چکا ہے صرف خوشبو باقی ہے تو پھرمُحرِم و ہ چادریں استعمال کر سکتاہے ۔ہاں بلاعُذر ایسی چادریں استعمال کرنا مکروہِ تنزیہی ہے ۔ فُقَہا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : جسکپڑے پر خوشبو کا جِرم (یعنی عَین۔جسم) باقی ہو اسے اِحْرام میں پہنا ناجائز ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۲۲۲) بہارِ شریعت میں ہے’ ’ اگر احرام سے پہلے بسایا تھا اور احرام میں پہنا تو مکروہ ہے مگر کفارہ نہیں ‘‘ (بہارِ شریعت ,ج ۱ ,ص۱۱۶۵)
سُوال: اِحرام کی حالت میں حَجرِ اَسوَد کا بوسہ لینے یا رکن یمانی کو چُھونے یا ملتزم سے لپٹنے میں اگر خوشبو لگ گئی توکیاکریں ؟
جواب: اگربَہُت سی لگ گئی تو دَم اور تھوڑی سی لگی تو صَدَقہ۔ (ایضاً ، ص۱۱۶۴) (جہاں جہاں خوشبو لگ جانے کا مسئلہ ہے وہاں کم ہے یا زیادہ اس کا فیصلہ دوسروں سے کروانا ہے۔ چونکہ زیادہ خوشبو لگ جانے پر دم ہے لہٰذا ہوسکتا ہے اپنا نفس زیادہ خوشبو کو بھی تھوڑی ہی کہے )
سُوال: محرِم جان بوجھ کر خوشبودار پھول سونگھ سکتا ہے یانہیں ؟
جواب: نہیں ۔محرم کا بالقصد (یعنی جان بوجھ کر) خوشبو یا خوشبو دار چیزسونگھنا مکروہِ تنزیہی ہے ، مگر کَفّارہ نہیں۔ (ایضاً ، ۱۱۶۳)
سوال: بے پکائی اِلائچی یا چاندی کے وَرَق والے الائچی کے دانے کھانا کیسا؟
جواب: حرام ہے ۔ اگر خالِص خوشبو ، جیسے مُشک ، زَعفران ، لونگ ، اِلائچی ، دار چینی ، اِتنی کھائی کہ مُنہ کے اکثر حصّے میں لگ گئی تو دَم واجِب ہوگیا اور کم میں صَدَقہ۔ (ایضاً ، ۱۱۶۴)
سُوال: خوشبودار زَرْدہ ، بِریانی اورقَورمہ ، خوشبو والی سونف ، چھالیہ ، کریم والے بسکٹ ، ٹافیاں وغیرہ کھاسکتے ہیں یانہیں ؟
جواب: جو خوشبو کھانے میں پکالی گئی ہو ، چاہے اب بھی اُس سے خوشبو آرہی ہو ، اُسے کھانے میں مُضایَقہ نہیں ۔اِسی طرح خوشبوپکاتے وَقْت تو نہیں ڈالی تھی اُوپر ڈال دی تھی مگر اب اُس کی مَہَک اُڑگئی اُس کاکھانا بھی جائز ہے ، اگربِغیر پکائی ہوئی خوشبو کھانے یا مَعْجون وغیرہ دوا میں مِلادی گئی تو اب اُس کے اَجزاء غذا یا دوا وغیرہ بے خوشبو اَشیاء کے اَجزاء سے زِیادہ ہیں تو وہ خالِص خوشبو کے حُکم میں ہے اور کَفّارہ ہے کہ مُنہ کے اَکثر حصّے میں خوشبو لگ گئی تو دَم اور کم میں لگی تو صَدَقہ اور اگر اَناج وغیرہ کی مقدار زِیادہ ہے اور خالِص خوشبو کم تو کوئی کَفّارہ نہیں ، ہاں خالِص خوشبو کی مَہَک آتی ہوتو مکرُوہ ِتنزیہی ہے ۔
سُوال: خوشبودار شربت ، فروٹ جوس ، ٹھنڈی بوتلیں وغیرہ پینا کیسا ہے ؟
جواب: اگر خالِص خوشبو جیسے صندل وغیرہ کا شربت ہے تو وہ شربت تو پکا کرہی بنایا جاتا ہے ، لہٰذامُطْلَقًا پینے کی اجازت ہے اور اگر اس کے اندر خوشبو پیدا کرنے کے لیے کوئی ایسنس ڈالا جاتا ہے تو میری معلومات کے مطابِق اس کے ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ پکائے جانے والے شربت میں اُس کے ٹھنڈا ہونے کے بعد ڈالا جاتا ہے اور یقینا یہ قلیل مقدار میں ہوتا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اُسے تین بار یا زِیادہ پیا تو دَم ہے ورنہ صَدَقہ۔بہار ِشریعت میں ہے ’’ پینے کی چیز میں اگر خوشبومِلائی اگر خوشبو غالِب ہے (تو دم ہے) یا خوشبوکم ہے مگر اُسے تین بار یا زِیادہ پیا تو دَم ہے ورنہ صَدَقہ۔ (بہارِ شریعت ، ج ۱ ، ص ۱۱۶۵ )
سُوال: مُحرِم نارْیَل کاتیل سَر وغیرہ میں لگاسکتاہے یا نہیں ؟
جواب: کوئی حَرَج نہیں ، البتَّہ تِل اور زیتون کا تیل خوشبو کے حُکم میں ہے۔ اگرچِہ اِن میں خوشبو نہ ہو یہ جِسم پر نہیں لگاسکتے۔ہاں ، اِن کے کھانے ، ناک میں چڑھانے ، زَخم پر لگانے اور کان میں ٹپکانے میں کَفّارہ واجِب نہیں ۔ (ایضاً ۱۱۶۶ )
سُوال: اِحرام کی حالت میں آنکھوں میں خوشبودار سُرمہ لگانا کیسا ہے؟
جواب: حرام ہے۔صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : خوشبودار سُرمہ ایک یا دو بار لگایا تو صَدَقہ دے ، اس سے زیادہ میں دَم اور جس سُرمے میں خوشبو نہ ہو اُس کے استِعمال میں حَرَج نہیں ، جب کہ بَضَرورت ہو اور بِلاضَرورت مکروہ (وخلافِ اَولیٰ) ۔ (ایضاً ، ۱۱۶۴ )
سُوال: خوشبو لگا لی او رکَفّارہ بھی دے دیا تو اب لگی رہنے دیں یا کیا کریں ؟
جواب: خوشبولگاناجب جُرم قرار پایا تو بد ن یا کپڑے سے دُور کرنا واجِب ہے اور کَفّارہ دینے کے بعد اگر زائل (یعنی دُور) نہ کیا تو پھردَم وغیرہ واجِب ہوگا۔ (ایضاً ، ۱۱۶۶ )
سُوال: حجاز ِمقدَّس کے ہوٹلوں میں خوشبودار صابن ، مُعطّر شیمپو اور خوشبووالے پاؤڈر ہاتھ دھونے کے لیے رکھے جاتے ہیں اور اِحرام والے بِلا تکلُّف ان کو استعمال کرتے ہیں ، طیارے میں اورایئر پورٹ پر بھی اِحرام والوں کویِہی ملتا ہے ، کپڑے اور برتن دھونے کا پاؤڈر بھی حجازِ مقدَّس میں خوشبودار ہی ہوتا ہے۔ان چیزوں کے بارے میں حکمِ شَرْعی کیا ہے؟
جواب: احرام والے ان چیزوں کواستعمال کریں تو کوئی کفّارہ لازِم نہیں آئے گا ۔
(البتّہ خوشبو کی نیّت سے ان چیزوں کا استِعمال مکروہ ہے۔)
سُوال: اِحرام کی نیَّت کرلینے کے بعد ایئر پورٹ وغیرہ پر گلاب کے پھولوں کا گجرا پہنا جا سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: احرام کی نیّت کے بعد گُلاب کا ہار نہ پہنا جائے ، کیونکہ گلاب کا پھول خود عَین (خالِص) خوشبو ہے اور اس کی مَہَک بدن اور لباس میں بَس بھی جاتی ہے۔ چُنانچِہ اگر اس کی مَہَک لباس میں بس گئی اور کثیر (یعنی زیادہ) ہے اور چار پَہَر یعنی بارہ گھنٹے تک اس کپڑے کو پہنے رہا تو دَم ہے ورنہ صَدَقہ اور اگر خوشبو تھوڑی ہے اور کپڑے میں ایک بالِشْت یا اس سے کم (حصّے) میں لگی ہے اور چارپَہَر تک اسے پہنے رہا تو ’’ صَدَقہ ‘‘ اور اس سے کم پہنا تو ایک مٹّھی گندُم دینا واجِب ہے۔اور اگر خوشبو قلیل (یعنی تھوڑی) ہے ، لیکن بالِشت سے زیادہ حصّے میں ہے ، تو کثیر (یعنی زیادہ) کا ہی حکم ہے یعنی چار پَہَر میں ’’ دم ‘‘ اور کم میں ’’ صَدَقہ ‘‘ اور اگر یہ ہار پہننے کے باوُجُود کوئی مَہَک کپڑوں میں نہ بسی تو کوئی کفّارہ نہیں ۔
سُوال: کسی سے مُصافَحہ کیا اور اُس کے ہاتھ سے مُحرِم کے ہاتھ میں خوشبو لگ گئی تو؟
جواب: اگرخوشبو کا عَین لگا تو ’’ کفّارہ ‘‘ ہوگا اور اگرعَین نہ لگا بلکہ ہاتھ میں صِرْف مَہَک آئی ، تو کوئی کفّارہ نہیں کہ اس مُحرِم نے خوشبو کے عَین سے نَفْعْ نہ اٹھایا ، ہاں اس کو چاہیے کہ ہاتھ کو دھو کر اس مہک کو زائل کردے۔
سُوال: خوشبودار شیمپو سے سر یا داڑھی دھو سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: شیمپو اگر سریا داڑھی میں استعمال کیا جائے ، تو خوشبو کی مُمانَعَت کی عِلّت (یعنی وجہ) پر غور کے نتیجے میں اس کی مُمانَعَت کا حکم ہی سمجھ میں آتا ہے ، بلکہ کَفّارہ بھی ہونا چاہیے ، جیسا کہ خِطمِی (خوشبوداربُوٹی) سے سر اور داڑھی دھونے کا حکم ہے کہ یہ بالوں کونَرْم کرتا ہے اور جُوئیں مارتا ہے اورمُحرِم کے لیے یہ ناجائز ہے۔ ’’ دُرمختار ‘‘ میں ہے : سر اور داڑھی کو خِطمِی سے دھونا (حرام ہے) کیونکہ یہ خوشبو ہے یا جُوؤں کو مارتا ہے۔ (دُرّمختار ، ج ۳ ، ص ، ۵۷۰) صاحِبَین ( یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھِمَا) کے نزدیک چُونکہ یہ خوشبو نہیں ، لہٰذا یہاں ’’ جنایتِ قاصِرہ ‘‘ (نامکمَّل جُرم) کا ثُبوت ہوگا اور اس کا مُوجَب ’’ صَدَقہ ‘‘ ہے۔شَیمپو سے سَر دھونے کی صورت میں بھی بظاہِر ’’ جِنایتِ قاصِرہ ‘‘ (یعنی نامکمَّل جُرم) کا وُجُود ہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں بھی آگ کا عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا خوشبو کا حکم تو ساقِط ہوگیا لیکن بالوں کو نَرْم کرنے اور جُوئیں مارنے کی عِلّت (یعنی سبب) موجود ہے ، لہٰذا ’’ صَدَقہ ‘‘ واجِب ہونا چاہیے۔یہ اَمْر بھی قابلِ توجُّہ ہے کہ اگر کسی کے سر پر بال اورچِہرے پر داڑھی نہ ہو ، تو کیا اب بھی حکم سابِق ہی لگایا جائے گا…؟ بظاہِر اس صورت میں کفّارے کا حکم نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ حُکمِ مُمانَعَت کی عِلّت (سبب) بالوں کا نَرْم اورجُوؤں کا ہَلاک ہونا تھا ، اور مذکورہ صورت میں یہ عِلّت مَفقُود (یعنی سبب غیر موجود) ہے اور اِنتفاء عِلّت (یعنی سبب کا نہ ہونا) اِنتفاءِمَعْلُول کو مُسْتَلزَم ( لازم کرنے والی) ہے لیکن اس سے اگر مَیل چُھوٹے تو یہ مکروہ ہے کہ مُحرِم کومَیل چُھڑانا مکروہ ہے۔اور ہاتھ دھونے میں اس کی حیثیَّت صابُن کی سی ہے کیونکہ یہ مائع یعنی لکوِڈحالت میں صابُن ہی ہے اور اِس میں بھی آگ کا عمل کیا جاتا ہے۔
سُوال: مسجِدِ ین کریمینِ کے فرش کی دھلائی میں جو خوشبو دار مَحلول استِعمال کیا جاتا ہے ، اُس میں لاکھوں مُحرِمِین کے پاؤں سَنتے ( یعنی آلودہ) ہوتے رہتے ہیں کیا حُکم ہے؟
جواب: کوئی کفّارہ نہیں کہ یہ خوشبو نہیں ۔ اوربِالفرض یہ مَحلول خالِص خوشبو بھی ہوتا ، تو بھی کفّارہ واجِب نہ ہوتا ، کیونکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ مَحلُول پہلے پانی میں ملایا جاتا ہے اور پانی اس محلول سے زائد اور یہ محلو ل مغلوب (کم) ہوتا ہے اور اگر مائِع (یعنی لکوِڈ۔) خوشبو کو کسی مائِع میں ملایا جائے اور مائِع غالِب ہو ، تو کوئی جَزاء نہیں ہوتی۔ کُتُبِ فِقہ میں جومَشروبات کا حُکم عُموماً تحریر ہے اِس سے مُراد ٹھوس خوشبو کا مائِع میں ملایا جانا ہے۔ علّامہ حسین بِن محمد عبدالغنی مکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’ اِرشادُالسّاری ‘‘ صَفْحَہ 316 میں فرماتے ہیں : اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ گیلی شکر ( یعنی میٹھا شربت) اور اس کی مِثل ، گُلاب کے پانی کے ساتھ ملایا جائے ، تو اگر عَرَقِ گُلاب مغلوب ہو ، جیسا کہ عادۃً ایسا ہی عام طور پر ہوتا ہے ، تو اس میں کوئی کفّارہ نہیں ، اور حضرتِ علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِینے اسی کی مِثل ’’ طَرابُلُسِی ‘‘ سے نَقْل کیا اور اسے برقرار رکھا اور اس کی تائید کی اور اس کی اصل ’’ مُحیط ‘‘ میں ہے۔
سُوال: مُحرِم نے اگر ٹوٹھ پیسٹ استِعمال کر لی تو کیا کفّارہ ہے؟
جواب: ٹوتھ پیسٹ میں اگر آگ کا عمل ہوتا ہے ، جیسا کہ یہی مُتَبادِر (یعنی ظاہِر ) ہے ، جب تو حکمِ کفّارہ نہیں ، جیسا کہ ماقَبل تفصیل سے گزر چکا۔ (ایضا ، ص ۳۳) البتّہ اگر منہ کی بد بُو دُور کرنے اور خوشبو حاصِل کرنے کی نیّت ہو تو مکروہ ہے۔ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِسنّت ، مجدِّدِ دین وملّت ، مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں: ’’ تمباکو کے قِوام میں خوشبو ڈال کر پکائی گئی ہو ، جب تو اس کا کھانا مُطْلَقاً جائز ہے اگرچِہ خوشبو دیتی ہو ، ہاں خوشبو ہی کے قَصْد سے اسے اختیار کرنا کراہت سے خالی نہیں ۔ ‘‘ ( فتاوی رضویہ ، ج ۱۰ ، ص ۷۱۶)
حج وعمرہ کی فضیلت حج کرنا کس پر فرض ہے؟ حج کی قسمیں حج کرنے کامکمل طریقہ حج کے فرائض ، واجبات اور سنتیں احرام کے مسائل عورتوں کے حج کے بارے میں سوال جواب عمرہ کرنے کا طریقہ حج کی دعائیں حج و عمرہ میں غلطیاں اور ان کے کفارے