بینک سے لون لے کر بزنس کرنے کا حکم



کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بینک سے لون لے کر کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب : بینک سے لون لینے میں چوں کہ بینکوں کو انٹرسٹ دینا پڑتا ہے اس لیے لون لیکر کاروبار کرنا اسی صورت میں جائز ہے جبکہ شدید ضرورت ہو کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو اور نہ ہی بے سودی کہیں سے روپیہ مل سکتا ہو بشرطیکہ بینک کو جو زائد رقم دینی پڑتی ہے اس کے برابر یا اس سے زیادہ نفع مسلمان کو حاصل ہو ورنہ لینا جائز نہ ہوگا۔الاشباہ والنظائر میں ہے
يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح [ الاشباہ والنظائر، الفن الاول القاعده الخامسه، ص : ۱۰۰]
فتاوی شامی میں ہے الظاهر أن الاباحة يفیدنيل المسلم الزيادة وقد الزم الاصحاب فى الدرس أن مرادهم من حل الربا والقمار ما اذا حصلت الزيادة للمسلم[رد المحتار، ج ۷، ص: ۳۲۲]
اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز رقمطراز ہیں: محتاج کے یہ معنی جو واقعی حقیقی ضروریات قابل قبول شرع رکھتا ہو کہ نہ اس کے بغیر چارہ ہو نہ کسی طرح بے سودی روپیہ ملنے کا یارا، ورنہ ہرگز جائز نہ ہوگا جیسے لوگوں میں رائج ہے کہ سودوسو کی تجارت کرتے ہیں قوت اہل وعیال بقدر کفایت ملتا ہے نفس نے بڑا سوداگر بننا چاہا پانچ چھ سو سودی نکلوا کر لگا دئے یہ ضرورتیں نہیں تو ان میں حکم جواز نہیں ہوسکتا۔ [فتاوی رضویہ، ج ۷ ص ۹۲]
ہاں ! اگر بینک سے لون نہ لیا جائے تو انکم ٹیکس کے حوالے سے مختلف پریشانیوں کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں محض انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنے کے لیے ظاہری طور پر بینک سے لون لینے کی گنجائش ہوگی، کیوں کہ یہاں بینک سے سودی قرض کسی فائدے کی غرض سے نہیں لیا جارہا ہے، بلکہ صرف انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنے کے لیے ، یعنی: دفع ظلم کے لیے ، اس لیے اس صورت میں انشاء اللہ گناہ نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب



متعلقہ عناوین



شیئر مارکیٹ میں پیسہ لگانے کا حکم ملٹی لیول مارکیٹینگ کا کیاحکم ہے؟ ڈاکٹر کے لئے دوا ساز کمپنی سے کمیشن لینے کا حکم میچول فنڈ میں انویسٹ کرنا کیسا ہے؟



دعوت قرآن