ایک اچھا اور نیک بیٹا ہونے کی حیثیت سے ہمارا اپنے والدین کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہئے اس بارے میں رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات ہمارے لئے بہترین رہنما اور آپ ﷺکی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے جس کو اپنا کر ہم دنیا اور آخرت کی سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں ۔ اور اس سے دوری میں سوائے تباہی وبربادی اور آخرت کی رسوائی وناکامی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
رسول اکرم ﷺکی آمد سے قبل جس طرح لوگ اور بہت ساری برائیوں میں ملوث تھے اسی طرح والدین کے ساتھ بھی ان کا بڑا گھٹیا اور ذلت آمیز سلوک تھا۔ان کی برائی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ:جب اس دور میں باپ کا انتقال ہوجاتا تھا تو اس کے بیٹے جب اپنے درمیان باپ کے چھوڑے ہوئے مال و دولت کو بانٹتے تھے تو ’ ماں ‘کو بھی ایک مال سمجھ کر بانٹ لیتے تھے اور ’ ماں‘ جس کے حصے میں آتی وہ یا تو اپنی ماں سے خود شادی کر لیتا تھا یا اسے بیچ کر مال ودولت حاصل کر لیتا تھا۔
رسول اکرم ﷺنے اپنی پاکیزہ تعلیمات سے ان تمام برائیوں کا قلع قمع فرمایا اور اپنی امت کو والدین کے حقیقی مقام ومرتبہ سے آگاہ فرمایااور ان کی عزت و احترام اور خدمت کرنے کو جنت میں جانے کا ذریعہ بتایا:چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک شخص نے رسول اکرم ﷺسے پوچھا کہ:یارسول اللہ ﷺ!اولاد پر ماں باپ کے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ھماجنتک ونارک۔وہ دونوں تیر ے جنت اور دوزخ ہیں،یعنی ان کی عزت واحترام اور خدمت کرنا تمہارے جنت میں جانے کا سبب ہے اور ان کی بے عزتی اور نافرمانبرداری کرنا تمہارے دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔[ابن ما جہ،حدیث: ۳۶۶۲]
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :حضور نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : اس شخص کی ناک مٹی میں مل جائے(اس کو تین مرتبہ فرمایا)یعنی وہ ذلیل و رسوا ہوجائے ،کسی نے پوچھا کہ :یارسول اللہ ﷺ! یہ آپ کس کے بارے میں ارشاد فر ما رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺنے فرمایا:اس شخص کے بارے میں جس نے اپنے ماں باپ ،دونوں یا ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (اس کی خدمت کرکے)جنت میں داخل نہ ہوا ۔یعنی ان کی خدمت نہ کی کہ جنت میں جاتا۔
[صحیح مسلم،حدیث: ۲۵۵۱]
رسول اکرم ﷺنے جس طرح اپنے والدین کی عزت و احترام اور خدمت کرنے کی تعلیم اپنی امت کو دیا اسی طرح آپ ﷺنے خود اپنے والدین کے ساتھ کرکے دیکھایا بھی۔ چنانچہ آپ ﷺکے حقیقی والدین تو آپ کے بچپنے ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے مگر آپ کے رضاعی والدین(یعنی جس مقدس خاتون نے آپ ﷺکو دودھ پلایاوہ اور ان کے شوہر)زندہ تھے ،وہ جب آپ ﷺ کے پاس تشریف لاتے تو آپ ﷺ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور ان کے بیٹھنے کے لئے اپنی چادر رحمت بچھا دیتے اور ان کی ضروریات کو پوری فرماتے۔ایک مرتبہ سخت قحط سالی ہوئی تو آپ ﷺنے اپنی رضاعی والدہ کو ۴۰؍بکریاں اور ایک اونٹ عطا فرمایا۔ [ضیاء النبی،جلد دوم،صفحہ:۹۳۔ ۹۴]
اب ذیل میں ہم اس تعلق سے کچھ مزید آیات کریمہ اور تعلیمات مصطفی ﷺپیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔اللہ تعالی ہم سب کو توفیق خیر سے نوازے۔
ارشاد باری تعالی ہے: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف(تک)نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے عزت کی بات کہنا اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا دے نرم دلی سے اور(ان کے لئے اپنے رب سے اس طرح دعا مانگ)ائے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جیسا انہوں نے مجھے بچپنے میں پالا۔[سورہ بنی اسرائیل،آیت: ۲۳]
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی ،اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتے ہوئے۔ اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے ۔یہ کہ شکر کر میرا اور اپنے ماں باپ کا ۔میری ہی طرف تمہیں آنا ہے اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرا ایسے کو جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان ،اور دنیا میں بھلائی کے ساتھ ان کا ساتھ دے۔
[سورہ لقمان، آیت:۱۴۔ ۱۵]
اور جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور اللہ نے جس کے جوڑنے کا حکم دیا اس کو کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں ان کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے بُرا گھر(یعنی جہنم)ہے۔[سورہ رعد،آیت: ۲۵]
اس کے علاوہ اور بھی آیتیں ہیں ،جن میں اللہ تعالی نے اپنی فر مانبرداری اور شکر گزاری کے ساتھ اپنے والدین کی بھی فر مانبرداری اور شکر گزاری کا حکم ارشاد فر مایا۔اس سے والدین کی عظمتوں کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔اب کچھ احادیث طیبہ پڑ ھئے تا کہ آپ کے اندر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی خدمت کرنے کا جذبہ اوران کے ساتھ بد سلوکی کرنے سے اللہ کا خوف پیدا ہوں ۔
حدیث۱: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک شخص نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فر مایا:تمہاری ماں،انہوں نے کہا:پھر کون ہے؟فرمایا:تمہاری ماں،انہوں نے کہا:پھر کون ہے؟ فرمایا:تمہاری ماں ،انہوں نے کہا:پھر کون ہے؟ آپ ﷺنے فر مایا:تمہارے باپ۔یعنی اولاد کی طرف سے حسن سلوک کے مستحق ہونے میں ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ ہے۔[صحیح مسلم،حدیث: ۲۵۴۸]
حدیث۲: حضرت معاویہ بن جاہمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :وہ کہتے ہیں کہ :میں نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو حضور ﷺنے ارشاد فر مایا:کیا تمہاری والدہ ہے؟میں نے کہا:ہاں!آپ ﷺنے ارشاد فر مایا:جاؤ۔اس کی تعظیم وتکریم اورخدمت کرواور اس سے چمٹے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔[شعب الایمان ،حدیث: ۷۴۴۸]
حدیث۳: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے ۔صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ! کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟آپ ﷺ نے فر مایا:ہاں اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔
[بخاری،حدیث :۵۹۷۳،مسلم،حدیث:۹۰،ابوداود،حدیث : ۵۱۴۱]
حدیث۴: حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب اولاد اپنے والدین کی طرف محبت سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر نظر کے بدلے اسے ایک مقبول حج کا ثواب عطا فر ماتا ہے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ! اگرچہ دن بھر میں سو مرتبہ دیکھے؟(یعنی تو کیا اسے سومقبول حج کا ثواب ملے گا؟)آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں! اللہ بڑا ہے اور اطیب ہے ۔[شعب الایمان،بر الوالدین،حدیث: ۷۴۷۲]
حدیث۵: حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:ماں باپ کی نافرمانبرداری کرنے والے ،مردوں کی صورت اختیا ر کرنے والی عورتیں اور دیوث کی طرف ، اللہ تعالی قیامت کے دن نظر رحمت نہ فر مائے گا، اور احسان جتلانے والا،والدین کی نافر مانبرداری کرنے والااور ہمیشہ شراب پینے والا جنت میں نہیں جائے گا۔[نسائی،حدیث: ۲۵۶۲]
حدیث۶: رسول اکرم ﷺنے فرمایا:سب گناہوں کی سزا اللہ تعالی چاہے تو قیامت تک ٹال دیتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا مرنے سے پہلے دنیا ہی میں پہنچا تا ہے۔[المستدرک للحاکم،کتاب البر والصلۃ،باب کل الذنوب یوخر اللہ ماشاء منہا، ج:۴؍ص: ۱۷۲،حدیث : ۷۲۶۳]
حدیث۷:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کے لئے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ایک شخص نے عرض کیا کہ :اگرچہ اس کے ماں باپ اس پر ظلم کریں ؟آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں،۔[شعب الایمان،حدیث:۷۹۱۶]
حدیث۸:حضرت عبد الرحمن بن ابو بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتادوں؟ صحابہ نے عرض کیا:ہاں!ضرور یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺنے فرمایا:اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،ماں باپ کی نافرمانبرداری کرنا،جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹ بولنا۔[ترمذی،حدیث: ۱۹۰۱]
حدیث۹ : حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:وہ کہتی ہیں کہ:جس زمانے میں قریش نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے معاہدہ کیا تھا، میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی ،میں نے عرض کیا کہ :یارسول اللہ ﷺ!میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے ،کیا میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟آپ ﷺنے فرمایا:اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔[بخاری ،حدیث :۵۹۷۸،مسلم،حدیث: ۱۰۰۳]
یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھاسلوک کیا جائے گا اور اس کے ساتھ اچھا سلوک یہ ہے کہ اسے اسلام کی طرف انتہائی ہمدردی اور پیار سے بلایا جائے ۔یونہی والدین نماز وغیرہ کے پابند نہ ہوں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک یہ ہے کہ انہیں نرم دلی اور محبت سے نماز کی طرف راغب کیا جائے۔
حدیث۱۰: حضرت ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ قبیلہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ :یارسول اللہ ﷺ! میرے والدین انتقال کر چکے ہیں تو کیا اب بھی ان کے ساتھ احسان کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟آپ ﷺنے فر مایا:ہاں! ان کے لئے دعا و استغفار کرنا ،اور جوانہوں نے عہد کیا تھا اس کو پورا کرنا ،اور جس رشتہ والے کے ساتھ انہیں کی وجہ سے سلوک کیا جا سکتا ہو اس کے ساتھ سلوک کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔ [ابوداود،حدیث:۵۱۴۲،المستدرک للحاکم،حدیث: ۷۲۶۰]
رسول اکرم ﷺکی ان پاکیزہ تعلیمات پر عمل کئے بغیر کوئی اولاد خوشحال نہیں رہ سکتی کیونکہ ماں باپ کی خوشی میں اللہ عز وجل کی خوشنودگی ہے ۔اور اس کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔[شعب الایمان ،حدیث:۷۴۴۶،ترمذی،ابواب البر والصلۃ ،حدیث : ۱۸۹۹]
باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں رشتہ دار ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں دعوت وتبلیغ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں