آج کے اس پر آشوب دور میں ایک رشتہ دار دولت و ثروت کی بہتات کے سبب فلک بوس عمارتوں میں داد عیش دے رہاہے ان کے بچے دنیا کی اعلی ترین ملبوسات زیب تن کر رہے ہیں ، لذیذ کھانوں اور میوہ جات سے سیراب ہو رہے ہیں اور دنیا کی ہر نو پید دلچسپیوں سے صبح و شام لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔مگر ان کی نظروں کے سامنے اس کے رشتہ دار بھوک سے بلک رہے ہیں ان کے بچے فاقہ کرنے پر مجبور نظر آرہے ہیں ان کے بدن پر معمول کا لباس بھی نظر نہیں آرہاہے اس کے باوجود ان کے دل کے اندر ان کے دکھ درد کو بانٹنے کا کوئی جذبہ نظر نہیں آتا بلکہ بسا اوقات ان کی غریبی اور مفلسی کی وجہ سے ان سے رشتہ کاٹ لیا جاتا ہے اور قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود پہچاننے تک سے انکا ر کر دیا جاتاہے۔جس کی وجہ سے ہمارے معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ عجیب درد و کرب سے کراہ رہاہے ۔
ایسی صورت حال میں معاشرے کو درد وغم اور مصا ئب و آلام سے کوئی نکال سکتا ہے ،تو وہ مصطفی جان رحمت ﷺ کی پاکیزہ سیرت اور آپ ﷺکی اعلی تعلیمات ہے۔اس لئے ذیل میں رشتہ داروں کے تعلق سے آپ ﷺکی سیرت اور آپ کی پاکیزہ تعلیمات پیش کی جاتی ہے جو ہمارے لئے بہترین نمو نہ عمل ہے۔
رشتہ داروں کے ساتھ آپ ﷺ کی ہمدردیاں: آپ ﷺ کے چچا ابو طالب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خوشحال نہ تھے ۔اکثر تنگی کا سا منا رہتا تھا ،مکہ میں جب قحط پڑا تو اس سے ان کی مالی حالت اور کمزور ہوگئی، حضور رحمت عالم ﷺ سے آپ کی یہ تکلیف نہ دیکھی گئی،حضور اپنے چچا حضرت عباس کے پاس گئے اور اس بات کی ترغیب دی کہ ہمیں مل کر جناب ابو طالب کا بوجھ بانٹ لینا چا ہئے ،ان کا ایک بیٹا میں لے لیتا ہوں ،اس کی پرورش میں کروں گا ۔ایک لڑ کا آپ لے لیں ،اور اس کی پرورش کی ذمہ داری آپ اپنے ذمے لے لیں اس طر ح ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ۔
چنا نچہ آپ ﷺ اور حضرت عباس ابو طالب کے پاس گئے اور اپنے آنے کا مقصد بتایا۔جناب ابو طالب کے چار بیٹے تھے، طالب،عقیل،جعفر،علی۔انہوں نے کہا :طالب اور عقیل کو آپ میرے پاس رہنے دیں اور باقی بچوں کے بارے میں جو آپ لوگوں کی مرضی ہو کریں ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو سب سے کم عمر تھے ۔رحمت عالم ﷺ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور جعفر کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ لے گئے۔[ضیاء النبی،جلد دوم،صفحہ:۲۲۹۔ ۲۳۰]
ان کے علاوہ جو بھی رشتہ دار تھے آپ ﷺ زندگی بھر ان کی خیر خواہی کرتے رہے ۔یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے دودھ کے رشتہ داروں کو بھی کبھی فراموش نہ کیا ۔چنانچہ قحط سالی کے زمانے میں آپ ﷺ نے اپنے رضاعی والدین کی مصیبتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں چالیس بکریاں اور ایک اونٹ عطا فر مایا۔اس طرح سے آپ ﷺ نے خود بھی اپنے رشتہ داروں کی تکلیف کو بانٹا اور دوسرے کو بھی اس نیک کام پر ابھارا۔اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم عطا فر مایا:چنانچہ ذیل میں اس سے متعلق آپ ﷺ کی کچھ تعلیمات نہایت اختصار کے ساتھ تحریر کی جاتی ہیں۔آپ انہیں پڑ ھئے اور عمل کیجئے۔
حدیث:۱۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:رحم(یعنی رشتہ)رحمن سے مشتق ہے اور اللہ تعالیٰ نے رشتہ کے بارے میں فر مایا ہے کہ:جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے کاٹے گا اسے میں کاٹوں گا[بخاری،حدیث:۵۹۸۸، مسلم،حدیث: ۲۵۵۷]
حدیث:۲۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ:یارسول اللہ ﷺ! مجھے ایسا کام بتائے کہ اگر میں اس کو کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔آپ ﷺ نے فر مایاکہ:سلام کو پھیلاؤ،کھانا کھلاؤ،اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرواور رات کو جب سب لوگ سو جائیں تو اٹھ کر نماز پڑھو اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔[المستدرک للحاکم، حدیث: ۷۲۷۸]
حدیث:۳۔حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فر مایا:میں اللہ ہوں ،میں رحمن ہوں ،رحم (یعنی رشتہ) کو میں نے پیدا کیا اور اس کانام میں نے اپنے نام سے مشتق کیا لہذا جو اسے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔[المستدرک للحاکم،حدیث:۷۲۶۹۔ ۷۲۷۰]
حدیث:۴۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں درازی (یعنی برکت)ہو اور رزق میں کشادگی ہو اور بری موت سے محفوظ رہے،وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ [المستدرک للحاکم،حدیث :۷۲۸۰، بخاری،حدیث:۵۹۸۵،۵۹۸۶ واللفظ للمستدرک]
حدیث:۵۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ [بخاری ،حدیث:۵۹۸۴،مسلم،حدیث: ۲۵۵۶]
حدیث:۶۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:اپنے نسب کو پہچانو تاکہ صلہ رحم کرو کیونکہ اگر رشتے کو کاٹا جائے تو اگر چہ قریب ہو وہ قریب نہیں ہے اور اگر جوڑا جائے تو دور نہیں ہے اگر چہ دور ہو۔ [المستدرک للحاکم، حدیث: ۷۲۸۳]
حدیث:۷۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرنے کے لئے گیا تو میں نے جلدی سے حضور اکرم ﷺ کا دست مبارک پکڑ لیا اور حضور نے بھی میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ۔پھر فر مایا:اے عقبہ! دنیا اور آخرت کے بہترین اخلاق یہ ہیں کہ:تم اس کو ملاؤجو تمہیں جدا کرے اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو ،اور جو یہ چاہے کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو وہ اپنے رشتہ والوں کے ساتھ صلہ رحمی(یعنی اچھا سلوک)کرے۔
[المستدرک للحاکم،حدیث: ۷۲۸۵]
حدیث:۸۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ:صلہ رحمی اس کا نام نہیں کہ بدلہ دیا جائے ،یعنی اس نے اس کے ساتھ احسان کیا تو اس نے بھی اس کے ساتھ کردیا بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اُدھر سے کاٹا جاتا ہے اور یہ جوڑتا ہے ۔ [بخاری،حدیث:۵۹۹۱،مسلم،حدیث: ۲۹۰۸]
رسول اکرم ﷺ کی ان پاکیزہ تعلیمات پر عمل کر کے ہی معاشرے کو جنت نشاں بنایا جا سکتا ہے اور ان تعلیمات سے ترک تعلق کے نقصانات بالکل روشن اور واضح ہیں۔اس لئے ایک اچھا رشتہ دار وہی ہے جو مصطفی جان رحمت ﷺ کی ان تعلیمات کے مطابق اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اور نہ یہ کہ صرف وہ کرتا ہے تب یہ کرتا ہے۔نہیں، بلکہ یہ اس وقت بھی حسن سلوک کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ اس کے رشتہ دار نہیں کرتے ہیں۔
بیٹا ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں دعوت وتبلیغ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں