سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مجھے اس سال حج پہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی ،جب واپس آیا تو کچھ دوستوں نے کہا کہ مسجد ِ نبوی میں لگا تارچالیس نمازیں ادا کرنی چاہئے ،جبکہ ہمارے قافلے کا جدول کچھ اس طرح تھا کہ میں لگا تار چالیس نمازیں اس میں ادا نہیں کر پایابلکہ مختلف مقامات پر ادا کیں ،اب سوال یہ ہے کہ اس وجہ سے میرے حج میں کوئی کمی تو نہیں آئی ؟
جواب : حج مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ارکان کی ادائیگی کا نام ہے،ان میں مسجد ِ نبوی شریف میں نمازیں ادا کرنا شامل نہیں،لہذا اگر کسی نے ارکانِ حج ،شرائط کی موجودگی میں ادا کر لئے تو اس کا حج ادا ہو گیا ،فقط مسجدِ نبوی شریف میں چالیس نمازیں ادا نہ کرنا حج کی ادائیگی میں نقصان کا باعث نہیں ۔البتہ حدیث ِ مبارکہ میں مسجد ِ نبوی شریف میں لگار تار چالیس نمازیں ادا کرنے پر،دوزخ اورنفاق سےآزادی کی بشارت دی گئی ہے،لہذامسلمانوں کو چاہئےکہ جب بھی موقع ملے کوشش کر کے اس فضیلت کو حاصل کریں،اوریاد رہےیہ فضیلت صرف حج کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عمرہ کرنے ولا یا کوئی بھی یہ نمازیں ادا کر لے تو اسکو مذکورہ فضیلت حاصل ہو جائے گی ،کیونکہ حدیث مبارکہ میں مطلقاًفرمایا گیا،حج کی تخصیص نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اگر کوئی حاجی عرفات میں انتقال کر جائے تو؟ حج اور عمرہ کی نیت کیا پھر صرف عمرہ کیا اور حج نہیں تو؟ کمیٹی کی رقم سے حج کرنا کیسا ہے؟ دم واجب ہونے کی صورت میں کیا زندہ جانور فقیر کو دے سکتے ہیں؟ نابالغ بچہ اگر عمرے پر جائے تو وہ اِحرام کی نیت کیسے کرے کیا حجِ بدل کرنے والے کا ، فرض حج ادا ہوجاتا ہے