بدعت



عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِىِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - لَيْلَةً فِى رَمَضَانَ ، إِلَى الْمَسْجِدِ ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّى الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ ، وَيُصَلِّى الرَّجُلُ فَيُصَلِّى بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّى أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ . ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ ، قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ ، وَالَّتِى يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِى يَقُومُونَ . يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ .

ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں :میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے،کو ئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کوئی گروہ کے ساتھ ۔حضرت عمر نے فرمایا :میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دیا جائے تو اچھا ہو گا ،پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے انہیں جمع کر دیا گیا ،پھر میں ایک دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا اور لوگ اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فر مایا :یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔(الصحیح البخاری،کتاب صلاۃ التراویح ،باب فضل من قام رمضان ،رقم الحدیث:۲۰۱۰)

عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ.

تر جمہ: حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا جس نے اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رائج کیا تو اس کو رائج کر نے کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے،اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقے کو رائج کیا تو اس کو اس کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہوگا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔(الصحیح المسلم، کتاب الزکوٰۃ،باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ ۔۔۔رقم الحدیث:۱۰۱۷،ابن ماجہ،رقم الحدیث :۲۰۷ )

عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ - رضى الله عنهما - فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ - رضى الله عنه - وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ .

تر جمہ : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ،حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہو تی تھی جبکہ امام منبر پر بیٹھ جاتے،پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگوں کی کثرت ہو گئی تو آپ نے تیسری اذان کا اضافہ کیا۔ (الصحیح البخاری،کتاب الجمعۃ ،باب الاذان یوم الجمعۃ ،رقم الحدیث :۹۱۲،۹۱۳،۹۱۵،۹۱۶ )

عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ - رضى الله عنه - قَالَ أَرْسَلَ إِلَىَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ - رضى الله عنه - إِنَّ عُمَرَ أَتَانِى فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّى أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنِّى أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ .قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ .فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِى حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِى لِذَلِكَ ، وَرَأَيْتُ فِى ذَلِكَ الَّذِى رَأَى عُمَرُ . قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْىَ لِرَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِى نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَىَّ مِمَّا أَمَرَنِى مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِى حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِى لِلَّذِى شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ - رضى الله عنهما - فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِى خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِىِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرَهُ ( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ ) حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ ، فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِى بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رضى الله عنه.

ترجمہ : عبید بن سباق سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں[صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے] شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قرّاءِ قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو[باقاعدہ کتابی شکل میں] جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے[اپنی زندگی میں] نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ تو ایک بڑا اچھا کام ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ[زید رضی اللہ عنہ] جوان اور عقلمند ہیں، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے بھی تھے، اس لیے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لیے کہتے تو میرے لیے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک عمل خیر ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید[جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا] کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے، [جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا]اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس لکھی ہوئی ملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں "لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏"سے سورۃ براۃ[سورۃ توبہ] کے خاتمہ تک۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہے۔ (الصحیح البخاری،کتاب فضائل القرآن ،باب جمع القرآن ،رقم الحدیث:۴۹۸۶)

عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ : مَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ سَيِّءٌ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے ارشاد فر مایا:جسے مسلمان اچھا سمجھے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان برا سمجھے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنھم ،باب ابو بکر الصدیق بن ابی قحافۃ رضی اللہ عنہما،حدیث:۴۴۶۵)

عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ , فَهُوَ رَدٌّ.

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کر تی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرےجو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردودہے۔(الصحیح البخاری، کتاب الصلح ،باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،رقم الحدیث:۲۶۹۷)

عِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ يَقُولُ : قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ، وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ ، فَقِيلَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ ، فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ ، فَقَالَ : عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللهِ ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا ، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلاَفًا شَدِيدًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي ، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَالأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ.

ترجمہ :حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اللہ سے ڈرو، اور امیر[سربراہ]کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں[بدعتوں]سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔[یعنی ہر وہ بدعت جو دین کے خلاف یا نقصان پہونچانے والا ہے وہ سب کی سب گمراہی ہے،جیسے قرآن وحدیث کے خلاف غلط عقیدے نکالنا اور اُسے صحیح سمجھنا وغیرہ][ابن ماجہ،المقدمہ،باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین،حدیث:۴۲]

عَنِ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا ».

تر جمہ: حضرت ابن جریر بن عبد اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر بھی ثواب ملے گا ،اور ان لوگوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہوگی۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا، پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کو اپنا گناہ ہوگا اور ان تمام لوگوں کے برابر بھی گناہ ہوگاجن لوگوں نے اُسے اپنایا،اور ان لوگوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔ (تر مذی،کتاب العلم عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فیمن دعا الی ھدی فاتبع او الی ضلالۃ،حدیث:۲۶۷۵)


متعلقہ عناوین



ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت



دعوت قرآن