حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا ».
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا :ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے(امت کے لئے) جو ضرور قبول کی جاتی ہے تو ہرنبی نے جلدی کی اور اپنی اُس دعا کو مانگ لیا ہے اور میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے سنبھال کر رکھا ہے۔تو ان شاء اللہ میری شفاعت میری امت کے ہر اُس آدمی کے لئے ہوگی جو اِس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔[مسلم،کتاب الایمان،باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لامتہ ، حدیث:۵۱۲]
حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- تَلاَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِى إِبْرَاهِيمَ ( رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِى فَإِنَّهُ مِنِّى) وَقَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ ( إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ) فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ « اللَّهُمَّ أُمَّتِى أُمَّتِى ». وَبَكَى فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ فَسَلْهُ مَا يُبْكِيكَ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ - فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِمَا قَالَ. وَهُوَ أَعْلَمُ. فَقَالَ اللَّهُ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ فَقُلْ إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِى أُمَّتِكَ وَلاَ نَسُوءُكَ.
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کا فرمان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہے،تلاوت فرمایا(انہوں نے اپنی امت کے لئے دعا کرتے ہوئے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کیا،جو قرآن میں ہے) "ائےمیرے رب!جھوٹے معبودوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو جس نے میری پیروی کی تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے نافرمانی کیا تو تو بے شک بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔" اور اُس آیت کی تلاوت کی جس میں عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنی امت کے لئے فرمایا،(انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا)" اگر تو انہیں عذاب دے تو بے شک یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔" (اِن آیتوں کی تلاوت کرنےکے بعد) اللہ کے رسول نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگے" یا اللہ! میری امت،یا اللہ! میری امت اور آپ رونے لگے۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ائے جبرئیل! محمد ( ) کے پاس جاؤ ،اور تیرا رب خوب جانتا ہے،اُن سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام رسولِ کریم کی خدمت میں آئے،پھر جو آپ نے بتایا اللہ تعالیٰ کو اُس کی خبر دی جب کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جاننے والا ہے،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ائے جبرئیل! محمد ( ) کی طرف جاؤ اور اُن سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور ہم آپ کو ناخوش نہیں ہونے دیں گے۔[مسلم،کتاب الایمان،باب دعاء النبی لامتہ وبکائہ شفقۃ علیھم، حدیث:۵۱۲]
حدیث : عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ ، وَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ ، لأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَكْفَى ، أَتُرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِينَ ؟ لاَ ، وَلَكِنَّهَا لِلْمُذْنِبِينَ ، الْخَطَّائِينَ الْمُتَلَوِّثِينَ.
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: مجھے شفاعت اور آدھی امت کو جنت میں داخل کرانے کے درمیان اختیار دیا گیا ،تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا کیونکہ وہ(صرف آدھی امت کے لئے نہیں بلکہ سبھی کے لئے) عام ہوگی اور کافی ہوگی، کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ یہ شفاعت پر ہیزگاروں کے لئے ہے؟ نہیں،بلکہ یہ گناہگاروں اور غلطیوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے لئے ہوگی۔[ابن ماجہ ، کتاب الزھد،باب الشفاعۃ ،حدیث:۴۳۱۱]
حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنْ عَلَى الأَرْضِ مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِهِ فَأَيُّكُمْ مَا تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَأَنَا مَوْلاَهُ وَأَيُّكُمْ تَرَكَ مَالاً فَإِلَى الْعَصَبَةِ مَنْ كَانَ ».
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے!زمین پر کوئی ایسا مومن نہیں مگر میں تمام لوگوں سے زیادہ اُس کے قریب ہوں،اس لئے تم میں سے جو قرض یا بچے چھوڑ کر انتقال کر جائے تو میں اس کا مددگار ہوں اور جو مال چھوڑ کر جائے تو وہ اُس کے وارثوں میں جو بھی ہو اُس کا ہے۔ [مسلم،کتاب الفرائض،باب من ترک مالا فلورثتہ، حدیث:۴۲۴۴]
حدیث : عَنْ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنْ كَانَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِى أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الْجَنَّةَ ».فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ فَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ قَالَ « وَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ ». قَالَتْ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ قَالَ « فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِى لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِى ».
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نےرسولِ اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت سے جس کے دو پیش رو ہوں ( یعنی جس کا دو بچہ انتقال کر گیا ہو) اللہ تعالیٰ اُسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا،اِس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:آپ کی امت میں سے جس کا ایک ہی پیش رو ہو تو؟ آپ نے فرمایا: جس کا ایک ہی پیش رو ہو اُسے بھی،ائے توفیق یافتہ خاتون! پھر انہوں نے پوچھا:آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش رو ہی نہ ہو اُس کا کیا ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: میں اپنی امت کا پیش رو ہوں،کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی۔ [ترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی ثواب من قدم ولدا، حدیث:۱۰۸۲]
حدیث : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ قَالَ « وَمَا أَعْدَدْتَ لِلسَّاعَةِ ». قَالَ حُبَّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ « فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ ». قَالَ أَنَسٌ فَمَا فَرِحْنَا بَعْدَ الإِسْلاَمِ فَرَحًا أَشَدَّ مِنْ قَوْلِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- « فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ ». قَالَ أَنَسٌ فَأَنَا أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسولِ اکرمﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا:تو نے قیامت کے لئے کیا تیاری کیا ہے؟ انہوں نے کہا:اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔آپ نے فرمایا:بے شک تو اُنہیں کے ساتھ رہے گا جن سے تو نے محبت کیا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد جتنی خوشی نبی کی اس بات سے ہوئی اُتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی،میں اللہ جل ّ مجدہ الکریم سے محبت کرتا ہوں اور اس کے رسول سے اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے اور میں امید کرتا ہوں میں انہیں کے ساتھ رہوں گا اگرچہ میں نے ان کی طرح عمل نہیں کیا۔[مسلم،کتاب البر والصلہ،باب المرء مع من احب،حدیث:۶۸۸۱]
حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ. فَقَالَ « انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ». قَالَ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ. فَقَالَ « انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ». قَالَ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ. ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ « إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِى فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِى مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ ».
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نےنبیﷺ سے کہا:یا رسول اللہ ! بے شک میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔آپ نے فرمایا:اچھی طرح سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو،آپ نے اس سے تین مرتبہ یہ کہا اور انہوں نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا کہ" بے شک میں آپ سے محبت کرتا ہوں" تو آپ نے فرمایا:اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو خود کو فقر وفاقہ کے لئے تیار کرو کیونکہ مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے جتنی تیزی سے پانی اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے۔[ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی فضل الفقر،حدیث:۲۵۲۳]
حدیث : عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ لِى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَا بُنَىَّ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِىَ لَيْسَ فِى قَلْبِكَ غِشٌّ لأَحَدٍ فَافْعَلْ ». ثُمَّ قَالَ لِى « يَا بُنَىَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِى وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِى فَقَدْ أَحَبَّنِى. وَمَنْ أَحَبَّنِى كَانَ مَعِى فِى الْجَنَّةِ ».
ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ائے میرے پیارے بیٹے! اگر تو طاقت رکھتا ہے کہ صبح اور شام اس حال میں کرو کہ تمہارے دل میں کسی کے لئے کوئی کینہ نہ ہو تو ایسا کرو۔پھر آپ نے مجھ سے فرمایا:ائے بیٹے! یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا تو اُس نے مجھ سے محبت کیا اور جس نے مجھ سے محبت کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔[ترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ والاجتناب البدع، حدیث: ۲۸۹۴]
حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّمَا مَثَلِى وَمَثَلُ أُمَّتِى كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتِ الدَّوَابُّ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهِ فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهِ ».
ترجمہ: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مثال اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے آگ جلائی پھر اس میں کیڑے اور پتنگے گرنے لگے تو میں تمہاری کمر کو پکڑے ہوئے ہوں اور تم بےسوچے سمجھے اندھادھند اس میں گر پڑتے ہو۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب شفقتہ علی امتہ و مبالغتہ فی تحذیرھم مما یضرھم، حدیث:۶۰۹۵]
ایمان علامات ایمان محبت الٰہی صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت