دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا



عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّى الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا إِلاَّ بِجَمْعٍ وَعَرَفَاتٍ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز اس کے وقت میں پڑھا کرتے تھے ،سوائے مزدلفہ اور عر فات کے۔(سنن نسائی،کتاب مناسک الحج ،باب الجمع بین الظہر والعصر بعرفۃ ،رقم الحدیث:۳۰۱۰،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۶۸۲،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۱۲۸۹)

عَنْ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلاَّهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللهِ عَهْدٌ ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.

ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :پانچ نمازیں ہیں جنہیں اللہ تعالی نے فر ض کیا ہے تو جو شخص ان کا وضو اچھی طرح کرے اور وقت پر ان کو ادا کرے اور ان کا رکوع اور خشوع مکمل طور سے ادا کرے تو اس کے لئے اللہ پر عہد ہے کہ اسے بخش دے ،اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اس کے لئے اللہ پر عہد نہیں ہے اگر چاہے تو اس کو بخش دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔ (ابو داود،کتاب الصلاۃ،باب فی المحافظۃ علی وقت الصلوات ،رقم الحدیث :۴۲۵)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَىُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ :إِقَامُ الصَّلاَةِ لِوَقْتِهَا وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَالْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ:اللہ عز وجل کے نزدیک سب سے زیادہ پسند یدہ عمل کونسا ہے؟حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا :نماز کو اس کے وقت پر پڑ ھنا ،والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اللہ عز وجل کے راستے میں جہاد کر نا۔ (سنن نسائی،کتاب المواقیت ،باب فضل الصلاۃ لمواقیتھا،رقم الحدیث:۶۱۱)

عَنْ أَبِى قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- : لَيْسَ فِى النَّوْمِ تَفْرِيطٌ إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِيمَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلاَةَ حَتَّى يَجِىءَ وَقْتُ الصَّلاَةِ الأُخْرَى حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا .

تر جمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ :اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فر مایا :نیند میں کو تاہی اور قصور نہیں ہے۔قصور یہ ہے کہ کوئی شخص نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔ (سنن نسائی،کتاب المواقیت ،باب فیمن نام عن صلاۃ،رقم الحدیث:۶۱۶)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَرَبَ فَخِذِي كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا قَالَ قَالَ مَا تَأْمُرُ قَالَ صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِكَ فَإِنْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ

ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضور سید المرسلین ﷺنے میری ران پر ہاتھ مار کرفرمایا:تیرا کیا حال ہوگا جب تو ایسے لوگوں میں رہ جائے گا جو نماز کو اس کے مستحب وقت سے تاخیر کرکے پڑ ھیں گے،میں نے کہا: حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟فر مایا:تو وقت پر پڑھ لینا ،پھر اپنی کسی حاجت کے لئے روانہ ہونا تو اگر نماز کے لئے اقامت کہی جائے اور تو مسجد میں رہنا تو پھر نماز پڑھ لینا۔(دوسر ی روایت میں یہ ہے کہ:تو بعد میں جو تو ان کے ساتھ پڑھے گا یہ تیرے لئے نفل ہوگا۔مسلم) (مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب کرھیۃ التا خیر الصلاۃ عن وقتھا المختار،حدیث:۶۴۸)

قال محمد : بلغنا عن عمر بن الخطاب أنه كتب في الآفاق ينهاهم أن يجمعوا بين الصلاتين ويخبرهم أن الجمع بين الصلاتين في وقت واحد كبيرة من الكبائر . أخبرنا بذلك الثقات عن العلاء بن الحارث عن مكحول

تر جمہ:امام محمد بن حسن شیبانی فر ماتے ہیں ہم تک یہ روایت ثقہ لوگوں کے ذریعے پہونچی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مملکت اسلامیہ کے چاروں طرف پیغام لکھا،اور انہیں دو نمازوں کو جمع کر نے سے منع فر مایااور کہا کہ: بے شک دونمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔ (موطا امام محمد ،ابواب الصلاۃ،باب الجمع بین الصلاتین فی السفر والمطر، حدیث:۲۰۵) کنز العمال کے الفاظ اس طر ح سے ہیں۔حضرت ابو قتادہ عدوی کہتے ہیں :میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان سنا کہ تین باتیں گناہ کبیر ہ میں سے ہیں ،دو نمازیں ایک ہی وقت میں جمع کرنا،جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھا گنااور کسی کا مال لوٹ لینا۔(کنز العمال،باب :الجمع بین الصلوتین،حدیث:۲۲۷۶۵) یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے سب راوی صحیح مسلم کے راویوں سے ہیں۔

عن نَافِع قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِى سَفَرٍ يُرِيدُ أَرْضًا لَهُ فَأَتَاهُ آتٍ فَقَالَ إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِى عُبَيْدٍ لَمَا بِهَا فَانْظُرْ أَنْ تُدْرِكَهَا. فَخَرَجَ مُسْرِعًا وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُسَايِرُهُ وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَلَمْ يُصَلِّ الصَّلاَةَ وَكَانَ عَهْدِى بِهِ وَهُوَ يُحَافِظُ عَلَى الصَّلاَةِ فَلَمَّا أَبْطَأَ قُلْتُ الصَّلاَةَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ. فَالْتَفَتَ إِلَىَّ وَمَضَى حَتَّى إِذَا كَانَ فِى آخِرِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَاءَ وَقَدْ تَوَارَى الشَّفَقُ فَصَلَّى بِنَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ صَنَعَ هَكَذَا.

ترجمہ : حضرت نافع بیان کر تے ہیں کہ: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکے ساتھ نکلا جب کہ وہ اپنی ایک زمین کی طرف تشریف لے جارہے تھے ،کسی نے آکر کہا:آپ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید اپنے حال میں مشغول ہے شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں ۔یہ سن کر تیزی سے چلنے لگے اور ان کے ساتھ ایک قریشی مرد تھا ،سورج ڈوب گیا اور نماز نہ پڑھی حالانکہ میں نے ہمیشہ ان کی عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فر ماتے تھے ،جب دیر لگائی تو میں نے کہا :نماز،خدا آپ پر رحم کرے ۔انہوں نے میری طرف پِھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہوئے جب شفق کا اخیر حصہ رہا (یعنی مغرب کا آخری وقت)تو سواری سے اُتر کر مغرب کی نماز پڑھی پھر عشاء کی تکبیر اس حال میں کہی کہ شفق ڈوب چکا تھا(یعنی مغرب کا وقت ختم ہو چکا تھا )اس وقت عشاء پڑھی اور ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا :رسول اللہ ﷺ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو ایسے ہی کرتے تھے۔یہ حدیث صحیح ہے۔(سنن النسائی،کتاب المواقیت ،باب الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء،حدیث:۵۹۵) اور دوسری روایت میں ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:جب تم میں سے کسی کو کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے تو اسی طر ح نماز پڑھ لیا کرو۔یہ روایت حسن ہے۔(سنن نسائی،حدیث:۵۸۸)

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ يُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ ، فَيُصَلِّيهَا ثَلاَثًا ثُمَّ يُسَلِّمُ ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ فَيُصَلِّيَهَا رَكْعَتَيْنِ

تر جمہ :حضرت عبد اللہ نے کہا : جب حضور ﷺ کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز میں تا خیر کرتے پھر تین رکعت نماز(مغرب)پڑھ کر سلام پھیرتے پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے پھر عشاء کی اقامت فرما کر دو رکعت عشاء کی نماز پڑھتے۔ ( بخاری ،کتاب تقصیر الصلوۃ،باب یصلی المغرب ثلاثا فی السفر،حدیث: ۱۰۹۲)

عن عبد اللہ بن مسعود :ان النبی ﷺکان یجمع بین المغرب و العشاء یؤخر ھذہ فی آخر وقتھا و یعجل ھذہ فی اول وقتھا۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: حضور اقدس ﷺ مغرب اور عشاء کو جمع فر ماتے ،مغرب کو اس کے آخر وقت میں پڑھتے اور عشاء کو اس کے اول وقت میں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۔عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حدیث:۹۸۸۰)


متعلقہ عناوین



ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت



دعوت قرآن