سماع موتی



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ - رضى الله عنه - قَالَ كَانَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ « إِذَا وُضِعَتِ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِى . وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لأَهْلِهَا يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَىْءٍ إِلاَّ الإِنْسَانَ ، وَلَوْ سَمِعَ الإِنْسَانُ لَصَعِقَ » .

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور سید عالم ﷺفر ماتے تھے کہ:جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں ،اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے:مجھے آگے بڑھائو ،اور اگر بُرا ہوتا ہے تو اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ہائے خرابی! کہاں لئے جاتے ہو؟انسان کے سوا ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے اور اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے۔( بخاری،کتاب الجنائز،باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی،حدیث:۱۳۱۶)

عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِى قَبْرِهِ ، وَتُوُلِّىَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولاَنِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِى هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ - صلى الله عليه وسلم - فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ . فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ ، أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ - قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا - وَأَمَّا الْكَافِرُ - أَوِ الْمُنَافِقُ - فَيَقُولُ لاَ أَدْرِى ، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ . فَيُقَالُ لاَ دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ . ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلاَّ الثَّقَلَيْنِ » .

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:جب مردے کو قبر میں رکھ دیا جاتاہے،اور اس کے ساتھی واپس جانے لگتے ہیں تو بے شک وہ ان کی جوتیوں کی آواز کا سنتا ہے،اس کے پاس دو فر شتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں ،دونوں اس سے کہتے ہیں :تو اس شخص(محمد ﷺ)کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا؟تو وہ کہتا ہے :میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔تو اسے کہا جاتا ہے جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو۔اللہ تعالی نے اسے تیرے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔حضور ﷺنے فر مایا:تو اسے جنت وجہنم کے دونوں ٹھکانے دیکھایا جاتا ہے۔اور رہا کافر اور منافق تو وہ کہتا ہے:میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے،دونوں فر شتے کہتے ہیں کہ:نہ تو نے سمجھا اور نہ ہی نیک لوگوں کی پیروی کی،پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اس کے کانوں کے درمیان مارتے ہیں ،تو وہ ایسے بھیانک انداز سے چیختا ہے کہ آس پاس کی ساری مخلوقات اس کی چیخ کو سنتی ہے سوائے انسان اور جنات کے۔(بخاری،کتاب الجنائز،باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث :۱۳۳۸)

عَنْ قَتَادَةَ قَالَ ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ أَبِى طَلْحَةَ أَنَّ نَبِىَّ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلاً مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ فَقُذِفُوا فِى طَوِىٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ ، وَكَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلاَثَ لَيَالٍ ، فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ الْيَوْمَ الثَّالِثَ ، أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ فَشُدَّ عَلَيْهَا رَحْلُهَا ، ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ وَقَالُوا مَا نُرَى يَنْطَلِقُ إِلاَّ لِبَعْضِ حَاجَتِهِ ، حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِىِّ ، فَجَعَلَ يُنَادِيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ « يَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ ، وَيَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ ، أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا ، فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا » . قَالَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لاَ أَرْوَاحَ لَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ » .

ترجمہ : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :اللہ کے رسول ﷺ بدر کے میدان میں قتل کئے گئے کافروں کے لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور ان کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارا۔ائے فلاں بن فلاں!اور ائے فلاں بن فلاں!ہم نے تو اس کو پا لیا جس کا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا (یعنی فتح و نصرت)تو کیا تم لو گوں نے بھی اس کو پا لیا جس کا وعدہ تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ بے جان جسموں سے بات کر تے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ء قدرت میں محمد(ﷺ)کی جان ہے۔میری باتوں کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔ (بخاری، کتاب المغازی،باب قتل ابی جھل۔حدیث:۳۹۷۶)

عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ (فساق الحدیث الی ان قال) فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.

تر جمہ: حضرت ابن شماشہ مہری سے روایت ہے کہ:حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وقت نزاع اپنے صاحبزادے سے کہا:جب انتقال کر جاؤں تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی نہ چلے اور نہیں آگ لے کر کوئی چلے پھر جب مجھے دفن کردینا،تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا پھر میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹھہرے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتاہے،تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور جان لو کہ میں اپنے رب کے فر شتوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔ (مسلم،کتاب الایمان ،باب کون الاسلام مایھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج،حدیث: ۱۲۱)

أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ ، قَالَ : مَا أُبَالِي فِي الْقُبُورِ قَضَيْت حَاجَتِي ، أَوْ فِي السُّوقِ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ.

تر جمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہا:میں برابر جانتاہوں کہ میں قبرستان میں قضائے حاجت کے لئے بیٹھوں یا بازار میں کہ لوگ دیکھتے رہے۔(یعنی مردے بھی دیکھتے ہیں جیسے زندہ دیکھتا ہے) (مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الجنائز،باب فی الرجل یبول ،او یحدث بین القبور،باب نمبر:۱۴۱جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳)

عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : أَذَى الْمُؤْمِنِ فِي مَوْتِهِ كَأَذَاهُ فِي حَيَاتِهِ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے ارشاد فر مایا:مومن کو مرنے کے بعد تکلیف دینا ایسے ہی جیسے اس کی زندگی میں تکلیف دینا۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۶۷،حدیث: ۱۲۱۱۵)

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ : أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَمِعَ صَوْتًا حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ : هَذِهِ أَصْوَاتُ الْيَهُودِ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا.

ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی اکرم ﷺنے سورج کے ڈوبنے کے وقت ایک آواز سنی تو فر مایا:یہ یہودیوں کی آواز ہے جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہاہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۷۵،حدیث: ۱۲۱۶۰)

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : إِنَّ الدُّنْيَا جَنَّةُ الْكَافِرِ وَسِجْنُ الْمُؤْمِنِ ، وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُؤْمِنِ حِينَ تَخْرُجُ نَفْسُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ كَانَ فِي سِجْنٍ ، فَخَرَجَ مِنْهُ فَجَعَلَ يَتَقَلَّبُ فِي الأَرْضِ ، وَيَتَفَسَّحُ فِيهَا ۔ و لفظ ابی بکر ھکذا: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى سربه , يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:بے شک دنیا کافر کی جنت ہے اور مسلمانوں کا قید خانہ،اور ایمان والوں کی جب جان نکلتی ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اور اب اسے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتا اور با فر اغت چلتا پھرتا ہے۔اور ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:دنیا مسلمانوں کا قید خانہ ہے اور کافروں کی جنت ،جب مسلمان مرتا ہے تو اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔ (کتاب الزھد لابن المبارک،ص:۲۱۱،حدیث:۵۹۷،دارالکتب العلمیہ بیروت،مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الزھد، جلد: ۱۳، ص: ۳۵۵،حدیث:۳۵۸۶۷)

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ الْمَيِّتَ يَعْرِفُ مَنْ يَحْمِلُهُ وَمَنْ يُغَسِّلُهُ ، وَمَنْ يُدَلِّيهِ فِي قَبْرِهِ .

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا:بے شک مردہ اسے پہچانتا ہے جو اس کو غسل دے اور جو اٹھائے اور جو کفن پہنائے اور جو قبر میں اتارے۔ (مسند احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ،جلد:۳؍ ص: ۳،حدیث:۱۱۰۱۰)

عن ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت:کنت ادخل بیتی الذی فیہ رسول اللہ ﷺ وانی واضع ثوبی واقول انما ھو زوجی و ابی ،فلما دفن عمر ،فواللہ ما دخلتہ الا و انا مشدودۃ علی ثیابی حیاء من عمر۔

تر جمہ: ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:وہ فر ماتی ہیں کہ:میں اس مکان جنت آستاں میں جہاں حضور سید عالم ﷺ کا مزار پُر انوار ہے یوں ہی بے لحاظ ستر و حجاب چلی جاتی ،اور جی میں کہتی وہاں کون ہے،یہی میرے شوہر یا میرے والد پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوئے تو قسم بخدا ،میں عمر سے حیاء کرتے ہوئے کبھی بغیر سراپا بدن چھپائے نہ گئی۔(امام حاکم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔) (مشکوۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور،ص:۱۵۴)


متعلقہ عناوین



ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت



دعوت قرآن