صدق نبوت کے دلائل



حدیث : عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً ، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکہ کے لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ سے مطالبہ کیا کہ وہ اُن لوگوں کو کوئی نشانی دیکھائے تو آپ نے ان لوگوں کو چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھایا۔[بخاری،کتاب المناقب، باب سُؤَالِ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُرِيَهُمُ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - آيَةً فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ، حدیث:۳۶۳۷]

حدیث : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِىٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ بِمَ أَعْرِفُ أَنَّكَ نَبِىٌّ قَالَ « إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ أَتَشْهَدُ أَنِّى رَسُولُ اللَّهِ ». فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّى سَقَطَ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- ثُمَّ قَالَ « ارْجِعْ ». فَعَادَ فَأَسْلَمَ الأَعْرَابِىُّ.

ترجمہ: حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ ایک دیہات کا رہنے والا شخص اللہ کے رسولﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں کیسے جانوں کہ آپ نبی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اگر میں اِس کھجور کے درخت کی اِس ٹہنی کو بُلالوں تو کیا تم میرے بارے میں گواہی دوگے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔پھر آپ نے اُسے بلایا تو وہ ٹہنی کھجور کے درخت سے اُتر کر حضور نبی کریم کے سامنے گر پڑی،پھر آپ نے فرمایا:لوٹ جا تو وہ واپس چلی گئی ،یہ دیکھ کر وہ دیہاتی شخص اسلام لے آیا۔ [ترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ النبی وما قد خصہ اللہ عزوجل بہ،حدیث: ۳۶۲۸]

حدیث : عَنْ بنِ عُمَرَ قال : كُنَّا مَعَ رسولَ اللهِ صلى الله عليه و سلم في سَفَرٍ فأقبل أعرابي فلما دَنَا مِنْه قال له رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه و سلم أينَ تُريدُ قَالَ إلى أهلي قال هَل لَّكَ فِيْ خَيْرٍ قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ تَشْهَد أَن لَّا إلٰهَ اِلّا اللهُ وَحْدَه لَا شَرِيْكَ لَه وأن محمدا عبده ورسوله قال وَمَن يَّشْهَدُ عَلىٰ مَا تَقُوْلُ قَالَ هٰذِهِ السَّلْمَةُ فَدَعَاهَا رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه و سلم وَهِيَ بِشَاطِئِ الوَادِي فَأَقْبَلَتْ تخد الأرضَ خَدّا حَتّىٰ قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاَستشهدها ثلاثا فَشَهِدَتْ ثلاثا أَنَّه كَمَا قَالَ ثُمَّ رَجَعَتْ إلى مَنْبَتِهَا وَرَجَعَ الْأعرَابيُ إِلٰى قَوْمِهِ وَقَالَ إن اِتَّبِعُوْنِيْ أَتتك بهمْ وَإلّا رَجَعْتُ مَكَثْتُ مَعَكَ .

ترجمہ: حضرت ا بن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ تھے،تو ایک اعرابی آیا جب وہ قریب ہوا تو رسول نے اُس سے فرمایا:کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا:اپنے گھر والوں کی طرف۔آپ نے فرمایا:کیا تمہیں بھلائی میں کوئی دلچسپی ہے؟ اس نے کہا:بھلائی کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ بھلائی یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ہے وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد( ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔اس نے کہا:آپ جو کہہ رہے ہیں اُس پر کون گواہی دے گا ( جس سے معلوم ہو کہ آپ سچے ہیں) آپ نے فرمایا:یہ کیکڑ کا درخت،پھر اللہ کے رسولﷺ نے اُس درخت کو بلایا،وہ میدان کے کنارے پر تھا،زمین کو چیرتے ہوئے آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا تو آپ ﷺ نے اُس سے تین مرتبہ گواہی مانگا،اس نے تین مرتبہ اس بات کی گواہی دی جو آپ نے کہا ،پھر وہ لوٹ کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔اور اعرابی اپنی قوم کی طرف لوٹ گیا اور جاتے ہوئے کہا اگر میری قوم نے میری بات مان لی تو میں اُن سب کو آپ کے پاس لے آؤں گا نہیں تو میں لوٹ کر آؤں گا اور آپ کے ساتھ رہوں گا۔[سنن دارمی،المقدمۃ،باب ما اکرم اللہ بہ نبیہ من ایمان الشجر والبھائم والجن، حدیث:۱۶]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضى الله عنهما - قَالَ عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ ، وَالنَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - بَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ فَجَهَشَ النَّاسُ نَحْوَهُ ، فَقَالَ « مَا لَكُمْ » . قَالُوا لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلاَ نَشْرَبُ إِلاَّ مَا بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِى الرَّكْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُورُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا . قُلْتُ كَمْ كُنْتُمْ قَالَ لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا ، كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً.

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی اور حضور نبی کریمﷺ کے سامنے چمڑے کا ایک چھوٹا سا ڈول رکھا ہوا تھا،آپ نے اس سے وضو کیا،تو لوگ اس میں سے پانی کے لئے جھپٹ پڑے،آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے؟ان لوگوں نے بتایا کہ ہمارے پاس وضو کرنے اور پینے کے لئے پانی نہیں ہے سوائے اِس پانی کے جو آپ کے سامنے ہے۔پھر آپﷺ نے اُس ڈول میں اپنا ہاتھ مبارک رکھا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے اس طرح پانی پھوٹ پھوٹ کر نکلنے لگا جس طرح چشموں سے پانی نکلتا ہے۔پھر ہم لوگوں نے پیا بھی اور وضو بھی کرلیا۔راوی نے کہا:میں نے پوچھا:آپ لوگ کل کتنے تھے؟ انہوں نے کہا:اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہوجاتا لیکن ہم لوگ پندرہ سو تھے۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۷۶]

حدیث : عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ضَعِيفًا ، أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَىْءٍ قَالَتْ نَعَمْ . فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ، ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِى وَلاَثَتْنِى بِبَعْضِهِ ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِى الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « آرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ » . فَقُلْتُ نَعَمْ . قَالَ بِطَعَامٍ . فَقُلْتُ نَعَمْ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - لِمَنْ مَعَهُ « قُومُوا » . فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ . فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ ، قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بِالنَّاسِ ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ . فَقَالَتِ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ . فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِىَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « هَلُمِّى يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ » . فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَفُتَّ ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ، ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَذِنَ لَهُمْ ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ، ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَذِنَ لَهُمْ ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ، ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَذِنَ لَهُمْ ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا ، وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ - أَوْ ثَمَانُونَ - رَجُلاً .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ( میری والدہ ) ام سلیم رضی اللہ عنہاسے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اس میں کمزوری تھی ۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں ، پھر اپنی اوڑھنی نکالی او اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا ۔ میں گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے ۔ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ۔ آپ نے دریافت فرمایا ، کچھ کھانا دے کر ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ، جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے ، ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو ، آپ صلى الله عليه وسلم تشریف لانے لگے اور میں آپ کے سے چل پڑا یہاں تک کہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر میں نے انہیں خبر دی ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے ، ام سلیم ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لا رہے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے ؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ( ہم فکر کیوں کریں ؟ ) خیر ابوطلحہ آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے ۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے ۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا ، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا ، اور اس طرح سالن ہو گیا ، آپ نے اس کے بعد اس پر پڑھا جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا ۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو ، انہوں نے ایسا ہی کیا ، ان سب نے روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو ۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا ، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا ، جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا ۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو ۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ۔ ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی ۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۷۸]

حدیث : عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - قَالَ أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ، فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْكُرَاعُ ، هَلَكَتِ الشَّاءُ ، فَادْعُ اللَّهَ يَسْقِينَا ، فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا . قَالَ أَنَسٌ وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ، ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا ، فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا ، فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الأُخْرَى ، فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ - أَوْ غَيْرُهُ - فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ ، فَادْعُ اللَّهَ يَحْبِسْهُ . فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ « حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا » . فَنَظَرْتُ إِلَى السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِينَةِ كَأَنَّهُ إِكْلِيلٌ .

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا ۔ آپ ﷺ جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ! گھوڑے بھوک سے ہلاک ہو گئے اور بکریاں بھی ہلاک ہو گئیں ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر پانی برسائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح ( بالکل صاف ) تھا ۔ اتنے میں ہوا چلی ۔ اس نےبادل کو اٹھایا پھر بادل کے بہت سے ٹکڑے جمع ہو گئے اور آسمان نے گویا اپنےمنہ کھول دیئے ،اور زور دار بارش ہوئی۔ ہم جب مسجد سے نکلے تو گھر پہنچتے پہنچتے پانی میں ڈوب چکے تھے ۔ بارش یوں ہی دوسرے جمعہ تک برابر ہوتی رہی ۔ دوسرے جمعہ کو وہی صاحب یا کوئی دوسرے پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مکانات گر گئے ۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ بارش کو روک دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : اے اللہ ! اب ہمارے چاروں طرف بارش برسا ( جہاں اس کی ضرورت ہو ) ہم پر نہ برسا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت بادل پھٹ کر مدینہ کے ارد گر ہو گئے تھے گو یا کہ مدینہ [زرو جواہر سے سجائے ہوئے] تاج کی طرح ہو گیا تھا ۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۸۲]

حدیث : عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ - رضى الله عنهما - يَقُولُ كَانَ الْمَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَخْلٍ فَكَانَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا خَطَبَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ مِنْهَا ، فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ ، وَكَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذَلِكَ الْجِذْعِ صَوْتًا كَصَوْتِ الْعِشَارِ ، حَتَّى جَاءَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ .

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر ٹکی ہوئی تھی، حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر تشریف لائے ، پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی اپنے بچے کی جدائی پر روتی ہو۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا تو وہ چپ ہوگیا۔ [بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۸۵]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَتّىٰ دَفَعْنَا إِلىٰ حَائِطٍ فِيْ بني النجَّارِ فَإِذَا فِيْهِ جَمَلٌ لاَ يَدْخُلُ الحَائِطَ أَحَدٌ اِلَّا شَدَّ عَلَيْهِ فَذَكَرُوْا ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَأَتَاه۟ فَدَعَاهُ فَجَاءَ وَاضِعاً مِشْفَرَهُ عَلَى الأرْضِ حَتّىٰ بَرِكَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ هَاتُوْا خِطَاماً فَخَطَمَهُ وَدَفَعَهُ إِلىٰ صَاحِبِهِ ثُمَّ اِلْتَفَتَ فَقَالَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأرْضِ أَحَدٌ اِلَّا يَعْلَمُ اَنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلاَّ عَاصِيِّ الِجنِّ وَالْأِنْسِ .

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم بنو نجار کے ایک باغ کے پاس آئے،اس میں ایک اونٹ تھا،باغ جو شخص بھی داخل ہو تا وہ اُس پر حملہ کر دیتا تھا،لوگوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کا ذکر کیا،تو آپ اس کے پاس آئے اور اُسے بلایا،تو وہ اپنا منہ زمین پر رکھے ہوئے آگیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی لگام لاؤ،پھر آپ نے اُسے لگام پہنایا اور اسے اس کے مالک کے حوالے کردیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: گناہگار انسان اور جنات کے علاوہ زمین و آسمان میں موجود ہر چیز یہ بات جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ [سنن دارمی،المقدمۃ،باب ما اکرم اللہ بہ نبیہ من ایمان الشجر والبھائم والجن، حدیث:۱۸]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنِّى لأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّى لأَعْرِفُهُ الآنَ ».

ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:بے شک میں مکہ کے اُس پتھر کو جانتا ہوں جو مجھ پر اعلان نبوت سے پہلے سلام بھیجتا تھا،بے شک میں اب بھی اُسے پہچانتا ہوں۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب فضل نسب النبی وتسلیم الحجر علیہ قبل النبوۃ حدیث:۲۲۷۷]

حدیث : عَنْ عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِبٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِى بَعْضِ نَوَاحِيهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلاَ شَجَرٌ إِلاَّ وَهُوَ يَقُولُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ.

ترجمہ: حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مکہ کے ارد گرد کے علاقوں کی طرف نکلا تو جو بھی پہاڑ اور درخت سامنے آتا وہ کہتا" السلام علیک یا رسول اللہ"۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ النبی وما قد خصہ اللہ عزوجل بہ،حدیث: ۳۶۲۶]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى سَمِعْتُ مِنْكَ كَثِيرًا فَأَنْسَاهُ . قَالَ « ابْسُطْ رِدَاءَكَ » .فَبَسَطْتُ فَغَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ ، ثُمَّ قَالَ « ضُمَّهُ » فَضَمَمْتُهُ ، فَمَا نَسِيتُ حَدِيثًا بَعْدُ .

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں اور بھول جاتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی چادر پھیلاؤ،میں نے پھیلا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے (ہوا میں)اس میں ایک لپ بھر کر ڈال دی اور فرمایا کہ اسے اپنے بدن سے لگا لو ۔ چنانچہ میں نے لگا لیاپھر اس کے بعد کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا ۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۶۴۸، مسلم،حدیث:۲۴۹۲]

حدیث : عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - قَالَ كَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ ، فَكَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - ، فَعَادَ نَصْرَانِيًّا فَكَانَ يَقُولُ مَا يَدْرِى مُحَمَّدٌ إِلاَّ مَا كَتَبْتُ لَهُ ، فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ ، لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا . فَأَلْقُوهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ ، فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ . فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ ، وَأَعْمَقُوا لَهُ فِى الأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا ، فَأَصْبَحَ قَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ ، فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا ۔ پھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا ۔ اس نے سورۃ البقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ بھی معلوم نہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہو گئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کر دیا ، جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے ۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے ۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے ۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی ۔ لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے ۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کر کے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے ( بلکہ یہ میت عذاب خداوندی میں گرفتار ہے ) چنانچہ ان لوگوں نے اسے یونہی ( زمین پر ) چھوڑدیا ۔ [بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۸۵]


متعلقہ عناوین



ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت



دعوت قرآن