عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا . قَالَ فَيُسْقَوْنَ .
تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :جب لوگ قحط کے شکار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے اس طرح دعا مانگا:ائے اللہ!بے شک ہم اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو ہمیں بارش عطا فرماتا،اور اب ہم اپنے نبی ﷺ کے چچا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بارش عطا فرما،راوی کہتے ہیں :تو بارش ہو ئی۔(الصحیح البخاری،کتاب الاستسقاء،باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، رقم الحدیث:۱۰۱۰)
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّ رَجُلاً ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ فَقَالَ : ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي , فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ , فَقَالَ : ادْعُهْ ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ ، يَا مُحَمَّدُ , إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ.
تر جمہ: حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نا بینا شخص نبی کر یم ﷺ کے پاس آیا ا ور اس نے کہا :میر ے لئے اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے عا فیت بخشے،تو حضور ﷺ نے کہا :اگر تم چاہو تو میں مؤ خر کردوں اور وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر چاہو تو دعا کر دوں ،تو انہوں نے کہا :دعا کر دیجئے،تو اس کو حضور ﷺنے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑ ھے اور اس طر ح سے دعا کرے:ائے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف رحمت والے نبی محمد ﷺ کے وسیلے سے متوجہ ہو تا ہوں ،یا محمد ﷺ!بے شک میں نے آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف لَو لگائی اپنی اس ضرورت میں تاکہ میری یہ ضرورت پو ری ہو جائے،ائے اللہ تو میری اس ضرورت کو پو ری فر ما۔(ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب ماجاء فی صلاۃ الحاجۃ،رقم الحدیث:۱۳۸۵،ترمذی ،رقم الحدیث:۳۵۷۸)
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ : يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي ، فَقَالَ اللَّهُ : يَا آدَمُ ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ ؟ قَالَ : يَا رَبِّ ، لأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَىَ قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلاَّ أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ ، فَقَالَ اللَّهُ : صَدَقْتَ يَا آدَمُ ، إِنَّهُ لاَُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلاَ مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ.
تر جمہ: حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺنے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی تو انہوں نے دعا کیا : ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد ﷺکے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما،اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد ﷺ کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا،؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہوا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھااسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی ہیں ،اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب تواریخ المتقدمین من الانبیاء والمرسلین ، ومن کتاب آیات رسول اللہ التی ھی دلائل النبوۃ، حدیث:۴۲۲۸)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ : اسْتَسْقَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَامَ الرَّمَادَةِ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ هَذَا عَمُّ نَبِيِّكَ الْعَبَّاسُ ، نَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِهِ فَاسْقِنَا ، فَمَا بَرِحُوا حَتَّى سَقَاهُمُ اللَّهُ ، قَالَ : فَخَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ ، فَقَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرَى لِلْعَبَّاسِ مَا يَرَى الْوَلَدُ لِوَالِدِهِ ، يُعَظِّمُهُ ، وَيُفَخِّمُهُ ، وَيَبَرُّ قَسَمَهُ فَاقْتَدُوا أَيُّهَا النَّاسُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَمِّهِ الْعَبَّاسِ ، وَاتَّخِذُوهُ وَسِيلَةً إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِيمَا نَزَلَ بِكُمْ.
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے قحط و ہلاکت کے سال حضرت عباس بن عبد المطلب کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے بارش کی دعا مانگی تو کہا:ائے اللہ! یہ تیرے نبی کے چچا عباس ہیں اِن کے وسیلے سے ہم تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمیں بارش عطا فر ما،تو اللہ تعالی نے بارش عطا فر مائی،راوی کہتے ہیں ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا تو کہا: ائے لوگوں!حضور ﷺحضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی مقام وحیثیت دیتے تھے جیسا بیٹا اپنے باپ کو دیتا ہے،آپ ﷺان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے،لوگوں! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺکی اقتدا کرو اور انہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ بنائوتاکہ وہ تم پر بارش برسائے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنھم، ذكر إسلام العباس رضي الله عنه و اختلاف الروايات في وقت إسلامه ،حدیث:۵۴۳۸)
حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه و سلم فاجعلوا منه كووا إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق
تر جمہ: حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ:مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے ،تو ان لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی ،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:حضور نبی اکرم ﷺکے قبر انور کے پاس جائواور اس سے ایک کھڑکی(سوراخ یا روشندان)آسما ن کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے در میان کوئی پردہ حائل نہ رہے ۔راوی کہتے ہیں کہ:انہوں نے ایسا ہی کیاتو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہذا اس سال کانام ہی ’ عام الفتق ‘(پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیاگیا۔ (سنن الدارمی،باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ ﷺ بعد موتہ،حدیث:۹۲)
عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ.
ترجمہ:مالک الدار،جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں پر قحط آیا،تو ایک شخص(صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی)حضور ﷺکے قبر انور پر آئے اور عرض کیا :یارسول اللہ!اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے کیو نکہ وہ قحط سے ہلاک ہورہے ہیں ،نبی ﷺان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:عمر کے پاس جائو،ان کو سلام کہواور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی،اور ان سے کہوکہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا:ائے اللہ !میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ میں عاجز ہو جاؤں۔حافظ ابن کثیر نے کہاکہ:یہ صحیح اسناد سے مروی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الفضائل ،باب ماذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ،حدیث :۳۲۶۶۵، جلد ۱۲،ص:۳۲،البدایۃ والنھایۃ،جلد:۷،ص:۹۱۔۹۲،قال الحافظ ابن کثیر ھذا اسناد صحیح)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ - رضى الله عنهما - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِى جَبَلٍ ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ انْظُرُوا أَعْمَالاً عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يُفَرِّجُهَا عَنْكُمْ . قَالَ أَحَدُهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِى وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ ، وَلِى صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ ، فَبَدَأْتُ بِوَالِدَىَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ بَنِىَّ ، وَإِنِّى اسْتَأْخَرْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ ، فَوَجَدْتُهُمَا نَامَا ، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ ، فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا ، أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا ، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِىَ الصِّبْيَةَ ، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَىَّ ، حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّى فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فَرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ . فَفَرَجَ اللَّهُ فَرَأَوُا السَّمَاءَ . وَقَالَ الآخَرُ اللَّهُمَّ إِنَّهَا كَانَتْ لِى بِنْتُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ ، فَطَلَبْتُ مِنْهَا فَأَبَتْ حَتَّى أَتَيْتُهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ ، فَبَغَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُهَا ، فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ ، وَلاَ تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إِلاَّ بِحَقِّهِ ، فَقُمْتُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّى فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَرْجَةً . فَفَرَجَ . وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّهُمَّ إِنِّى اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِى حَقِّى . فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ ، فَرَغِبَ عَنْهُ ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا فَجَاءَنِى فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ . فَقُلْتُ اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرُعَاتِهَا فَخُذْ . فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَسْتَهْزِئْ بِى .فَقُلْتُ إِنِّى لاَ أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَخُذْ . فَأَخَذَهُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّى فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِىَ ، فَفَرَجَ اللَّهُ » .
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ زور دار بارش ہو نے لگی،تو انہوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی ،اتنے میں غار کے منہ پہ پہاڑ کا ایک چٹان آگرا اور یہ لوگ اس میں بند ہو گئے ۔پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا :تم لوگوں اپنے نیک کاموں پر غور کرو جو تم نے صرف اللہ کی رضا اور خوشنودگی کے لئے کیا ہے ،اور ان نیک کاموں کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو ،شاید اللہ تعالی تم سے یہ مصیبت دور کر دے ۔تو اس میں سے ایک آدمی نے دعا کیا :ائے اللہ !میرے بوڑ ھے ماںباپ تھے ،اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میں بکریاں چرا تا تھا ،جب میں واپس آتا تو دودہ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودہ پلاتا ،ایک دن مجھے آنے میں تا خیر ہو گئی ،تو میں رات سے پہلے نہ آسکا ،جب میں آیا تو میرے ماں باپ سو چکے تھے ،میں نے حسب معمول دودہ دوہا اور ایک بر تن میں دودہ ڈال کر ماں باپ کے سر ہانے کھڑا ہو گیا ،میں ان کو نیند سے بیدار کر نا نا پسند کر تا تھا اور ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودہ پلانا بھی نا پسند کر تا تھا ،حالانکہ بچے میرے قدموں مین چیخ رہے تھے،میں اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ائے اللہ! یقینا تو جا نتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے کیا تھا ،تو ہمارے لئے کچھ کشادگی کردے تاکہ ہم غار میں سے آسمان کو دیکھ لیں۔تو اللہ تعالی نے کچھ کشادگی کر دی تو ان لوگوں نے آسمان کو دیکھ لیا۔
پھر دو سرے آدمی نے دعا کی :ائے اللہ !میر ے چچا کی ایک لڑکی تھی جس سے میں بہت محبت کر تا تھا ،میں نے اس سے مقاربت کی درخواست کی،اس نے انکار کیا اور کہا پہلے سو دینار لائو۔میں نے بڑی محنت کر کے سو دینار جمع کیا اور اس کے پاس گیا ،جب میں جنسی عمل کر نے پر قادر ہو گیا تو اس نے کہا :ائے اللہ کے بندے اللہ سے ڈر اور ناجائز طریقے سے مہر نہ توڑ ،تو میں اسی وقت اس سے الگ ہو گیا ۔ائے اللہ! تجھے یقینا معلوم ہے کہ میں نے یہ کا م صرف تیری خوشی کے لئے کیا تھا ،پس تو ہمارے لئے اس غار کو کچھ کھول دے،تو اللہ تعالی نے غار کو مزید کھول دیا۔
پھرتیسرے شخص نے کہا:ائے اللہ !میں نے ایک شخص کو ایک فر ق(یعنی ایک پیمانہ آٹھ کلو گرام)چا ولوں کی اجرت پہ رکھا تھا ،جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو اس نے کہا مجھے میری اجرت دو ،میں نے اسے مقررہ اجرت دے دی مگر اس نے اس سےاعراض کیا ،میں ان چاولوں کی کاشت کر تا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کی آمدنی سے بیل اور چر واہے جمع کر لئے،پھر ایک دن وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا :اللہ سے ڈرو اور میرا حق نہ مارو ،میں نے کہا :یہ بیل اور چر واہے لے جائو۔اس نے کہا اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو ،میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا یہ بیل اور چر واہے لے لو ،وہ ان کو لے کر چلا گیا ۔ائے اللہ !تو یقینا جا نتا ہے کہ میں نے یہ کام صرف تیری خوشی اور رضا کے لئے کیا تھا ،تو اب تو غار کا با قی منہ بھی کھول دے ۔تو اللہ تعالی نے غار کا باقی منہ بھی کھول دیا۔
(الصحیح البخاری،کتاب المزارعۃ،باب اذا ذرع بمال قوم بغیر اذنھم و کان فی ذلک صلاح لھم ،رقم الحدیث:۲۳۳۳)
ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت