حدیث: عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ قَالَ نَعَمْ فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ امْكُثْ مَكَانَكَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمْ التَّصْفِيقَ مَنْ رَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں میں صلح کرانے کے لیے تشریف گئے، نماز کا وقت ہوگیا۔تو مؤذن نےحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے۔ میں تکبیر کہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئےاور لوگ نماز میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا )تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کوحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا معلوم ہو جائے(لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے زیادہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔)کہ نماز پڑھائے جاؤ ( لیکن انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر! جب میں نے حکم دے دیا تھا پھر کس چیز نے تمہیں اپنی جگہ ثابت رہنے سے روکا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوقحافہ کے بیٹے) یعنی ابوبکر (کی یہ ہمت نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھا سکیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عجیب بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ بکثرت ہاتھ پر ہاتھ مار رہے تھے۔) یاد رکھو ( اگر نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے جب وہ یہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور یہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے۔[بخاری،کتاب الاذان،باب من دخل لیئوم الناس فجاء الامام الاول فتأخر الاول،حدیث:۶۴۳]
حدیث: عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيُّ وَكَانَ تَبِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَدَمَهُ وَصَحِبَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الْحُجْرَةِ يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَكُ فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنْ الْفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ وَأَرْخَى السِّتْرَ فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابی اور خادم خاص تھے فر ماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوصال میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔ چنانچہ پیر کے دن جب لوگ صف باندھے ہوئے نماز ادا کر رہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر، ہماری طرف دیکھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک قرآن کے ورق کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی خوشی میں نماز نہ توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آ ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا۔ اور اسی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصال فر ما گئے۔[بخاری،کتاب الاذان،باب اھل العلم والفضل احق بالامامۃ،حدیث:۶۳۹]
حدیث: عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ(حدیث طویل)فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ أَيْ قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا بَلَى قَالَ أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا بَلَى قَالَ فَهَلْ تَتَّهِمُونِي قَالُوا لَا قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي اسْتَنْفَرْتُ أَهْلَ عُكَاظَ فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَيَّ جِئْتُكُمْ بِأَهْلِي وَوَلَدِي وَمَنْ أَطَاعَنِي قَالُوا بَلَى قَالَ فَإِنَّ هَذَا قَدْ عَرَضَ لَكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ اقْبَلُوهَا وَدَعُونِي آتِيهِ قَالُوا ائْتِهِ فَأَتَاهُ فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ قَوْلِهِ لِبُدَيْلٍ فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ أَيْ مُحَمَّدُ أَرَأَيْتَ إِنْ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ هَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَهْلَهُ قَبْلَكَ وَإِنْ تَكُنِ الْأُخْرَى فَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى وُجُوهًا وَإِنِّي لَأَرَى أَوْشَابًا مِنْ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ فَقَالَ مَنْ ذَا قَالُوا أَبُو بَكْرٍ قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا يَدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِي لَمْ أَجْزِكَ بِهَا لَأَجَبْتُكَ قَالَ وَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ لَهُ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَقَالَ أَيْ غُدَرُ أَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا الْإِسْلَامَ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالَ فَلَسْتُ مِنْهُ فِي شَيْءٍ ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَيْنَيْهِ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَيْ قَوْمِ وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَيْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوهَا.
ترجمہ: (حضرت مسور بن مخرمہ سے حدیبیہ کےدن سے متعلق ایک لمبی حدیث مروی ہے اس کا کچھ حصہ یہ ہے کہ)عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے(کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم کے لوگو! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ، ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیرخواہ نہیں ہوں ،انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیاتم لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ،اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لا کر کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا؟ قریش نے کہا کیوں نہیں )آپ کی باتیں درست ہیں (اس کے بعد انہوں نے کہا دیکھو اب اس شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے، اسے تم قبول کر لو اور مجھے ان کے پاس گفتگو کرنےکے لیے جانے دو، سب نے کہا آپ ضرور جایئے۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدیل سے کہہ چکے تھے ،عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا۔ اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم (! بتائیے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو، لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے تو میں اللہ کی قسم میں آپ کے ساتھ ایسے چہروں کو دیکھ رہاہوں جو اس وقت بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے "تو اپنے بت لات کی شرمگاہ کو چوس"۔ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ عروہ نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔ بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ،تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے۔ عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی نیام کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا اے دغا باز! کیا میں نے تیری دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا۔ اس کے بعد مدینہ آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تیرا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا)پھر عروہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کرتےتو سب پر خاموشی چھا جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو! قسم اللہ کی میں بہت سے بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں، قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں بھی لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ، تمہیں چاہئے کہ اسے قبول کر لو۔[بخاری،کتاب الشروط،باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع اہل الحرب وکتابۃ الشروط،حدیث:۲۵۲۹]
حدیث: عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَبَكَى طَوِيلًا وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتَاهُ أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا قَالَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي وَلَا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ قَدْ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا جَعَلَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبَايِعْكَ فَبَسَطَ يَمِينَهُ قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي قَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلِهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.
ترجمہ: حضرت ابن شماسہ مہری سے روایت ہے کہ، ہم لوگ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہ موت کے قریب تھے تو بہت دیر تک روتے رہے اور اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا ۔ ان کے بیٹے کہنے لگے: ابا جان! آپ کیوں روتے ہیں، کیا آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری نہیں دی۔ تب انہوں نے اپنا منہ سامنے کیا اور کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سب باتوں میں افضل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ کوئی سچا معبود نہیں سوائے اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔ میرے اوپر تین حال گزرے ہیں۔ ایک حال یہ تھا جو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میں کسی کو برا نہیں جانتا تھا اور مجھے آرزو تھی کہ کسی طرح میں قابو پاوَں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں (معاذاللہ ) اگر میں اس حال میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔ دوسرا حال یہ تھا کہ اللہ نے اسلام کی محبت میرے دل میں ڈالی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ میں نے کہا: اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں بیعت کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا میں نے اس وقت اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہوا تجھ کو اے عمرو! میں نے کہا شرط رکھنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا شرط ؟ میں نے کہا: یہ شرط کہ میرے گناہ معاف ہوں جو اب تک کئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! کیاتو نہیں جانتا کہ بے شک اسلام لانا ختم کردیتا ہے پہلے کے تمام گناہوں کو اسی طرح ہجرت اور حج کرنا پہلے کے تمام گناہوں کو ڈھا دیتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھ کو کسی کی محبت نہ تھی اور نہ میری نگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کی شان تھی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی وجہ سےآنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا اور اگر میں اس حال میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا۔ اس کے بعد اور چیزوں میں ہم کو پھنسنا پڑا۔ میں نہیں جانتا میرا کیا حال ہو گا ان کی وجہ سے، تو جب میں مر جاوَں میرے جنازے کے ساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مٹی ڈال دینا مجھ پر اچھی طرح اور میری قبر کے گرد کھڑے رہنا اتنی دیر جتنی دیر میں اونٹ کاٹا اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ میرا دل بہلے تم سےاور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں اور دیکھ لوں کہ پروردگار کے فرشتوں کو میں کیا جواب دیتا ہوں۔[مسلم،کتاب الایمان،باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ وکذا الھجرۃ والحج،حدیث:۱۲۱]
حدیث: عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَامَ الْفِيلِ. وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِى يَعْمُرَ بْنِ لَيْثٍ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَكْبَرُ مِنِّى وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِى الْمِيلاَدِ وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَامَ الْفِيلِ وَرَفَعَتْ بِى أُمِّى عَلَى الْمَوْضِعِ قَالَ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلاً.
ترجمہ: حضرت قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،دونوں واقعہ فیل کے سال پیدا ہوئے۔وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم[جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں] سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں،میں آپ سے پہلے ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے،میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں[جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں]تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی میلاد النبی صلى الله عليه وسلم ،حدیث:۳۶۱۹]
حدیث: عَنْ أَبِى رَافِعٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ قَالَ فَانْبَجَسْتُ أَىْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ « أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ ». قُلْتُ إِنِّى كُنْتُ جُنُبًا. قَالَ « إِنَّ الْمُسْلِمَ لاَ يَنْجُسُ ».
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں تھے؟ یا: کہاں چلے گئے تھے [راوی کو شک ہے] میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔[ترمذی،کتاب الطہارۃ،باب ماجاء فی مصافحۃ الجنب، حدیث:۱۲۱]
حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ قُلْنَا وَمَا هَمَمْتَ قَالَ هَمَمْتُ أَنْ أَقْعُدَ وَأَذَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات کو نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دوں۔[لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی خاطر میں نے ایسا نہیں کیا] [بخاری،کتاب التہجد،باب طول القیام فی صلاۃ اللیل،حدیث:۱۱۳۵]
ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت