تبرکات نبوی ﷺٰ



حدیث: عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُونَ ذَاكَ الْوَضُوءَ فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ.

ترجمہ: حضرت ابوحجیفہ وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ۔ [بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب الصلاۃ فی الثوب الاحمر،حدیث:۳۷۶]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِى بَكْرٍ وَكَانَ خَالَ وَلَدِ عَطَاءٍ قَالَ أَرْسَلَتْنِى أَسْمَاءُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَقَالَتْ بَلَغَنِى أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلاَثَةً الْعَلَمَ فِى الثَّوْبِ وَمِيثَرَةَ الأُرْجُوَانِ وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ. فَقَالَ لِى عَبْدُ اللَّهِ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ رَجَبٍ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الأَبَدَ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْعَلَمِ فِى الثَّوْبِ فَإِنِّى سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ ». فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ الْعَلَمُ مِنْهُ وَأَمَّا مِيثَرَةُ الأُرْجُوَانِ فَهَذِهِ مِيثَرَةُ عَبْدِ اللَّهِ فَإِذَا هِىَ أُرْجُوَانٌ. فَرَجَعْتُ إِلَى أَسْمَاءَ فَخَبَّرْتُهَا فَقَالَتْ هَذِهِ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. فَأَخْرَجَتْ إِلَىَّ جُبَّةَ طَيَالَسَةٍ كِسْرَوَانِيَّةً لَهَا لِبْنَةُ دِيبَاجٍ وَفَرْجَيْهَا مَكْفُوفَيْنِ بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ هَذِهِ كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّى قُبِضَتْ فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَكَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَى يُسْتَشْفَى بِهَا.

ترجمہ: حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا کے غلام عبد اللہ جو حضرت عطا ء کے لڑکوں کے ماموں تھے،بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام کہتے ہیں،کپڑوں کے نقش ونگار کو،سرخ گدوں کو اور رجب کے مہینے کے تمام روزے رکھنے کو۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:آپ نے جو رجب کے متعلق ذکر کیا ہے تو جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہو [وہ رجب کے روزوں کو حرام کیسے کہہ سکتا ہے] رہا کپڑوں کے نقش ونگار کا مسئلہ تو میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ریشم وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔اور مجھے یہ ڈر تھا کہ نقش ونگار بھی شاید ریشم کے بنائے جاتے ہیں،رہا سرخ رنگ کا گدا تو عبد اللہ بن عمر کا گدا بھی سرخ رنگ کا ہے۔راوی کہتے ہیں[میں یہ جوابات لے کر] حضرت اسماء کے پاس آیا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا:یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے،اور انہوں نے ایک موٹا دھاری دار کسروانی[یہ کسریٰ کی طرف منسوب ہے] جبہ نکالا جس کی آستینوں اور گریبان پر ریشم کے نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔حضرت اسماء نے کہا:یہ جبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک اُن کے پاس تھا اور جب ان کی وفات ہوئی تو پھر میں نے اس کو اپنے قبضے میں لے لیا،اِس جُبّہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنا کرتے تھے اور ہم اِس جبّہ کو دھو کر اس کا پانی شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں۔[مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم استعمال اناء الذھب والفضۃ علی الرجال والنساء ، حدیث:۲۰۶۹]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَدْخُلُ بَيْتَ أُمِّ سُلَيْمٍ فَيَنَامُ عَلَى فِرَاشِهَا وَلَيْسَتْ فِيهِ - قَالَ - فَجَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ فَنَامَ عَلَى فِرَاشِهَا فَأُتِيَتْ فَقِيلَ لَهَا هَذَا النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- نَامَ فِى بَيْتِكِ عَلَى فِرَاشِكِ - قَالَ - فَجَاءَتْ وَقَدْ عَرِقَ وَاسْتَنْقَعَ عَرَقُهُ عَلَى قِطْعَةِ أَدِيمٍ عَلَى الْفِرَاشِ فَفَتَحَتْ عَتِيدَتَهَا فَجَعَلَتْ تُنَشِّفُ ذَلِكَ الْعَرَقَ فَتَعْصِرُهُ فِى قَوَارِيرِهَا فَفَزِعَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ « مَا تَصْنَعِينَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ ». فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَرْجُو بَرَكَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ « أَصَبْتِ ».

ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور ان کے بستر پر سو گئے۔ وہ وہاں نہیں تھیں۔ وہ آئیں تو لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر سو رہے ہیں، یہ سن کر وہ آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ چمڑے کے بچھونے پر جمع ہو گیا ہے، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنا ڈبہ کھولا اور یہ پسینہ پونچھ پونچھ کر شیشیوں میں بھرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: کیا کر رہی ہو؟ اے ام سلیم! انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے لیے اِس پسینے سے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا۔ [مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب عرق النبی صلى الله عليه وسلم والتبرک بہ ،حدیث:۲۳۳۱]

حدیث: عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَالْحَلاَّقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ فَمَا يُرِيدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلاَّ فِى يَدِ رَجُلٍ.

ترجمہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بنا رہا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے وہ چاہتے تھے کوئی بال زمین پر نہ گرے، بلکہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی علیہ السلام من الناس وتبرکھم بہ،حدیث:۲۳۲۵]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا رَمَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْجَمْرَةَ وَنَحَرَ نُسُكَهُ وَحَلَقَ نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الأَنْصَارِىَّ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الأَيْسَرَ فَقَالَ « احْلِقْ ». فَحَلَقَهُ فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ فَقَالَ « اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ ».

ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں اور قربانی کر لی اور سر منڈوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں جانب حجام کے آگے کیا توانہوں نے اُس طرف کے بال مونڈ دی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ انصاری کو بلایا اور ان کو وہ بال دے دیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بائیں جانب آگے کی کہ ”اس کو مونڈو۔“ جب وہ مونڈ دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ کو وہ بال دیا اور فرمایا کہ لوگوں میں تقسیم کر دو۔[مسلم،کتاب الحج،باب بیان ان السنۃ یوم النحر ان یرمی ثم ینحر ثم یحلق، حدیث:۱۳۰۵]

حدیث: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ قُلْتُ لِعَبِيدَةَ عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ فَقَالَ لَأَنْ تَكُونَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.

ترجمہ: حضرت ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال مبارک ہیں، جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یاحضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں۔ یہ سن کرحضرت عبیدہ نے کہا کہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بال بھی ہو تا تووہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ پیاری ہوتی ۔[بخاری،کتاب الوضوء،باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان،حدیث:۱۷۰]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ فَمَا يُؤْتَى بِإِنَاءٍ إِلاَّ غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا فَرُبَّمَا جَاءُوهُ فِى الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا.

ترجمہ: ‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھا لیتے تو مدینےکے خادم لوگ اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے،پھر جو بھی برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے، کبھی وہ لوگ ٹھنڈی کے دنوں میں آتے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈوبا دیتے۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی صلى الله عليه وسلم من الناس وتبرکھم بہ ،حدیث:۲۳۲۴]


متعلقہ عناوین



ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت



دعوت قرآن