اختیارات مصطفی ﷺ



عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ معْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ ، يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي ، فَيَقُولُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ ، أَلا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ.

ترجمہ :حضرت مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے، تو سن لو! بے شک وہ چیزیں جسے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی حرام ہیں جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والتغلیظ علی من عارضہ،حدیث:۱۲]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَامَ فَقَالَ « إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى كَتَبَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ ». فَقَالَ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِىُّ كُلُّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَسَكَتَ فَقَالَ : لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ.

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھمانے کہاکہ: رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :بے شک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے۔حضرت اقرع ابن حابس تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ !کیا ہر سال حج فرض ہے ؟تو آپ ﷺ خاموش رہے ،پھرفرمایا:اگر میں ہاں کر دیتاتو ہر سال حج فرض ہوجاتا۔(معلوم ہواکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم احکام شرعیہ پر اختیار کلی رکھتے تھے،اگر چاہتے تو ہر سال حج کرنا فرض فرمادیتے۔) [سنن نسائی،کتاب مناسک الحج،باب وجوب الحج،رقم الحدیث:۲۶۲۰،ابن ماجہ،رقم الحدیث:۲۸۸۴،ترمذی،رقم الحدیث : ۸۱۴،ابوداود،رقم:۱۷۲۱]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ - وَفِى حَدِيثِ زُهَيْرٍ عَلَى أُمَّتِى - لأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ ».[وفی روایۃ ابی امامۃ] وَلَوْلاَ أَنِّي أَخَافُ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي ، لَفَرَضْتُهُ لَهُمْ .

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اگرمجھے میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺ نے فر مایا:اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا۔[الصحیح المسلم،کتاب الطہارۃ،باب السواک رقم الحدیث:۲۵۲،ابن ماجہ،باب السواک،حدیث:۲۸۹]

عَنْ عَلِىٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِى تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَىْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ الدَّرَاهِمِ ».

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ،تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم۔[ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ ﷺ ،باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق، حدیث:۶۲۰]

عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا فَلَا يَذْبَحْ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَعَلْتُ فَقَالَ هُوَ شَيْءٌ عَجَّلْتَهُ قَالَ فَإِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً هِيَ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّتَيْنِ آذْبَحُهَا قَالَ نَعَمْ ثُمَّ لَا تَجْزِي عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ .

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ عید الاضحی کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فر مایا:جو ہماری طرح نماز پڑھتا ہے اوہمارے ر قبلے کی طرف رخ کرتا ہے وہ نماز عید سے پہلے قر بانی نہ کرے ،حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :یارسول اللہ !میں تو قربانی کر چکا،آپ ﷺ نے فر مایا:تم نے جلد بازی کیا،انہوں نے عرض کیا :میرے پاس بکری کا چھ مہینے کا بچہ ہے مگر وہ دو بکریوں سے بھی اچھا ہے،کیا میں اس کو ذبح کردوں؟حضور ﷺ نے فرمایا:ہاں،اس کی جگہ کردو اور ہر گز(اتنی عمر کی بکری) تیرے بعدکسی کی قر بانی میں کافی نہ ہوگی۔ [بخاری،کتاب الاضاحی،باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد،حدیث:۵۵۶۳،مسلم،حدیث:۱۹۶۱]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَإِنِّى حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا لاَ يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَلاَ يُصَادُ صَيْدُهَا ».

ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ کو حرم بنایااور میں نے مدینہ طیبہ کو حرم کیا کہ اس کے خاردار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے وحشی جانور شکار نہ کئے جائیں ۔ [الصحیح المسلم،کتاب الحج ،باب فضل المدینۃ ودعاء النبی فیھا بالبرکۃ الخ ۔۔۔رقم الحدیث:۱۳۶۲،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۸۶۷،سنن ابی داود، رقم الحدیث:۲۰۳۴،۲۰۳۵،۲۰۳۶،۲۰۳۷،۲۰۳۸،۲۰۳۹]

عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِىٍّ فَاسْتَتْبَعَهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- لِيَقْضِيَهُ ثَمَنَ فَرَسِهِ فَأَسْرَعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْمَشْىَ وَأَبْطَأَ الأَعْرَابِىُّ فَطَفِقَ رِجَالٌ يَعْتَرِضُونَ الأَعْرَابِىَّ فَيُسَاوِمُونَهُ بِالْفَرَسِ وَلاَ يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- ابْتَاعَهُ فَنَادَى الأَعْرَابِىُّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسَ وَإِلاَّ بِعْتُهُ. فَقَامَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ سَمِعَ نِدَاءَ الأَعْرَابِىِّ فَقَالَ « أَوَلَيْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ ». فَقَالَ الأَعْرَابِىُّ لاَ وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَهُ. فَقَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « بَلَى قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ ». فَطَفِقَ الأَعْرَابِىُّ يَقُولُ هَلُمَّ شَهِيدًا. فَقَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَايَعْتَهُ.فَأَقْبَلَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى خُزَيْمَةَ فَقَالَ « بِمَ تَشْهَدُ ». فَقَالَ بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ.

تر جمہ: حضرت عمارہ بن خزیمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :میرے چچا صحابی رسول ﷺ نے بیان فر مایاکہ:حضورﷺ نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا ،پھر حضور ﷺ اس کو اپنے ساتھ لے چلے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا فر مائیں،حضور ﷺ تو تیزی سے چل رہے تھے مگر اعرابی آہستہ آ ہستہ قدم رکھتا تھا ،راستے میں کچھ لوگوں نے اس اعرابی سے اس گھوڑے کا مول تول کیا ،کیونکہ ان لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ اس کو خرید چکے ہیں ،اعرابی نے وہیں سے آواز لگائی کہ آپ(ﷺ)گھوڑا لینا چاہیں تو خریدئیے ورنہ میں گھوڑا بیچ دوں گا،حضور ﷺ نے جب اعرابی کی آواز سنی تو رک گئے اور فر مایا:کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟اعرابی بولا:نہیں ،خدا کی قسم میں نے آ پ کے ہاتھوں نہیں بیچا ہے ،حضور ﷺ نے فر مایا:کیوں نہیں ،بلاشبہ تو نے مجھ سے سودا کر لیا ہے،اعرابی کہنے لگا کوئی گواہ پیش کیجئے۔اس وقت حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس سے گھوڑا خرید لیا ہے،حضور نبی کریم ﷺ حضرت خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فر مایا:تم کیسے گواہی دیتے ہو(جبکہ خریدتے وقت تم موجود نہ تھے)انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہا ہوں ،تو حضور ﷺ نے حضرت خزیمہ کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔ [سنن ابی داود،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم،حدیث:۳۶۰۷]

حَدَّثَنِى رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبٍ الأَسْلَمِىُّ قَالَ كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِى : سَلْ. فَقُلْتُ أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِى الْجَنَّةِ. قَالَ « أَوَغَيْرَ ذَلِكَ ». قُلْتُ هُوَ ذَاكَ. قَالَ « فَأَعِنِّى عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ ».

ترجمہ: حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میںحضور اقدس رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزاراتو میں آپ ﷺ کے وضو وغیرہ کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا،حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے سے ارشاد فرمایا:مانگ۔ تو میں نے عرض کی کہ :میں حضور سے مانگتا ہوں کہ جنت میں حضور کے ساتھ رہوں ۔فرمایا:اور کچھ؟میں نے عرض کی: میری مراد توبس یہی ہے ۔فرمایا:تواپنے اوپر کثرت سجود سے میری اعانت کر ۔ [الصحیح المسلم، کتاب الصلوٰۃ،باب فضل السجود والحث علیہ، رقم الحدیث :۴۸۹،سنن ابی داود،رقم الحدیث:۱۳۲۰]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَلَكْتُ فَقَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ وَقَعْتُ بِأَهْلِي فِي رَمَضَانَ قَالَ تَجِدُ رَقَبَةً قَالَ لَا قَالَ هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لَا قَالَ فَتَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لَا قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِعَرَقٍ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ فِيهِ تَمْرٌ فَقَالَ اذْهَبْ بِهَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ قَالَ أَعَلَى أَحْوَجَ مِنَّا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، میں تو تباہ ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کوئی غلام ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا : مسلسل دو مہینے روزے رکھ سکتے ہو، انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک انصاری صحابیعرقلے کر حاضر ہوئے،]عرق:ایک پیمانہ ہے[ اس میں کھجوریں تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ان دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا اور اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔[بخاری،کتاب کفارات الایمان،باب من اعان المعسر فی الکفارۃ،حدیث:۶۲۱۶]


متعلقہ عناوین



ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت



دعوت قرآن