نیت کرنا۔یعنی دل میں ارادہ کرنا۔
عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ :إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر فر مایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ : تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور بے شک ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ثواب ملے گا۔ پس جس کی ہجرت دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو۔تو اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔ [صحیح بخاری،کتاب بدء الوحی،باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ الخ۔۔حدیث:۱]
قبلہ رخ ہو کرتکبیر تحریمہ یعنی ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہنا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ يَقُولُ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ ، اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَقَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ.
حضرت ابو حمیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو قبلہ رُخ ہوکر ہاتھوں کو اٹھاتے اور”اَللّٰہ أکبر“کہتے تھے۔ [ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب افتتاح الصلاۃ۔حدیث:۸۰۳]
ہاتھ کہاں تک اٹھایا جائے؟
عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكَادَ إِبْهَامَاهُ تُحَاذِى شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ.
حضرت عبد الجبار بن وائل اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ کے دونوں انگوٹھے آپ کے دونوں کانوں کی لَو کے برابر ہو جاتے ۔ [سنن نسائی،کتاب الافتتاح،باب موضع الابھامین عند الرفع۔حدیث:۸۸۲]
ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں؟
عن بن عمر قال قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا اسْتَفْتَحَ أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ فَلْيَرْفَعْ يَدَيْهِ، وَلْيَسْتَقْبِلْ بِبَاطِنِهِمَا الْقِبْلَةَ، فَإِنَّ اللَّهَ أَمَامَهُ
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی تکبیر کہے تو اُسے چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور اُن کا اندرونی حصہ (یعنی ہتھیلیوں کا رُخ )قبلہ کی طرف کرے ۔ [المعجم الاوسط،جزء:۸،ص:۱۱، باب من اسمہ محمود۔حدیث:۷۸۰۱]
ہاتھ کیسے باندھیں؟
عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ قَالَ فِيهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ
حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں:پھر آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت ، گٹے اور کلائی پر رکھا ۔ [سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،تفریع ابواب استفتاح الصلاۃ،باب رفع الیدین فی الصلاۃ۔حدیث:۷۲۷]
ہاتھ کہاں باندھیں؟
عَنْ عَلقَمَةَ بنِ وِائِل بنِ حُجْرٍ،عَنْ اَبِيْهِ رَضِیَ الله عَنْهُ قَالَ: رَأيتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِيْنَهُ عَلَی شِمَالِهِ فِی الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے نماز میں اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا۔ [مصنف ابن ابی شیبۃ،باب وضع الیمین علی الشمال:۳/۳۲۰- ۳۲۱، حدیث:۳۹۵۹]
عَنْ أَبِى جُحَيْفَةَ أَنَّ عَلِيًّا - رضى الله عنه - قَالَ السُّنَّةُ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِى الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:نماز میں سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔ [سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،تفریع ابواب استفتاح الصلاۃ،باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ۔حدیث:۷۵۶]
ثناء پڑھنا۔
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ قَالَ : سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب نماز شروع کرتے تو یہ پڑھتے
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ. [سنن نسائی،کتاب الافتتاح،باب نوع آخر من الذکر بین افتتاح الصلاۃ وبین القرأۃ۔حدیث:۸۹۹]
تعوذ یعنی اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھنا۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں:نبی کریم ﷺ تلاوت سے پہلے ’’أَعُوذُ بِا اللہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔[مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاۃ،باب متی یستعیذ؟۔حدیث:۲۵۸۹]
تسمیہ یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَفْتَتِحُ صَلاَتَهُ بِ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ )
ترجمہ: حضرت ابن عباس سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺ اپنی نماز کا افتتاح’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘سے کیا کرتے تھے۔[ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب من رای الجھر ب "بسم اللہ الر حمٰن الرحیم "،حدیث:۲۴۵]
تعوذ،تسمیہ،آمین وغیرہ کو آہستہ پڑھنا۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ:قَالَ عُمَرُ:أَربَعٌ يُخْفَيْنَ عَنِ الْإِمَامِ:التَّعَوُّذُ،وَبِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحيْمِ، وَ آميْن، وَاَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ۔
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعیحضرت عمر کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ چار چیزیں امام آہستہ کہے گا :تعوّذ، تسمیہ ،آمین اور اللّٰہم ربنا لک الحمد۔[کنز العمال،حدیث:۲۲۸۹۳]
خَمْسٌ يُخْفِيَنَّ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَآمِينَ، وَاللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ۔
ترجمہ : مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء ، تعوذ ، تسمیہ ،آمین اور تحمید ۔[مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاۃ،باب مایخفی الامام؟۔حدیث:۲۵۹۷]
سورہ فاتحہ اور کوئی سورت ملانا۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ « لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا ». قَالَ سُفْيَانُ لِمَنْ يُصَلِّى وَحْدَهُ
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور اُس سے زائد نہ پڑھے ۔ حدیث کے راوی حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ یہ حکم اُس شخص کے لئے ہے جواکیلے نماز پڑھ رہا ہو۔[سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب من ترک القرأۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب ،حدیث:۸۲۲]
جب امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو قرأت کے وقت خاموش رہیں۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہوتاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔[ الأعراف:204]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ، وَإِذَا قَالَ : {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ} ، فَقُولُوا : آمِينَ
تر جمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ"غیر المغضوب علیھم ولاالضالین" کہے تو تم آمین کہو۔ (ابن ماجہ ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب اذا قرأ الامام فانصتوا، رقم الحدیث :۸۴۶،الصحیح البخاری،رقم الحدیث :۷۲۲ ،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۴۱۴، سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۳،۱۲۴۴،۱۲۴۵،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۴)
آمین آہستہ سے کہے۔
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَرَأَ:{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}قَالَ: "آمِينَ " وَأَخْفَى بِهَا صَوْتَهُ۔
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺنے ہمیں نماز پڑھائی اور جب سورہ فاتحہ ختم کی تو آہستہ آواز میں آمین کہی۔[مسند احمد،مسند الکوفیین،حدیث وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حدیث:۱۸۸۷۴]
چار رکعت والی نماز میں صرف پہلی دو رکعات میں سورہ ملائیں۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ ، وَفِي الأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں :نبی کریم پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھتے تھے اور آخری دو رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔[مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،من کان یقرء فی الاولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ،حدیث:۳۷۶۲]
رکوع کرنا۔
وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ۔
ترجمہ: اور رُکوع کرنے والوں کے ساتھ رُکوع کرو۔[البقرۃ:۴۳]
ایک معروف حدیث جو ”حدیثِ اعرابی“ کے نام سے مشہور ہے اُس میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺنے اُس اَعرابی کو جس نے جلدی جلدی نماز پڑھی تھی ،آپﷺنے اُسےنماز سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا “یعنی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد پھر تم اِطمینان کے ساتھ رکوع کرو ۔
[بخاری،کتاب الاذان،باب وجوب قرأۃ الامام والماموم فی الصلوات کلھا،حدیث:۷۵۷]
رکوع کرنے کا طریقہ
رکوع کرنے کے طریقے میں کئی چیزیں ہیں جن کی تفصیل احادیث طیبہ کے ساتھ مندرجہ ذیل ہے:۔
رکوع میں کمر سیدھی ہونی چاہیئے
حضرت ابوحمیدساعدی نےنبی کریمﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے رکوع کا طریقہ یہ اِرشاد فرمایا:۔فَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ جب آپﷺ نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑا پھر اپنی کمر کو ہموار اور برابر رکھا۔ [صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب استقبال اطراف اصابع الیدین من القبلۃ فی السجود،حدیث:۶۴۳]
رکوع میں سر کو کمر کے برابر سیدھا رکھنا چاہیئے
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:۔ كَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ جب آپ ﷺرکوع کرتے تو نہ اپنے سر کو اونچا رکھتے تھے اور نہ نیچا ،بلکہ دونوں کے درمیان (یعنی برابر) رکھتے تھے ۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ،باب مایجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔،حدیث:۴۹۸]
رکوع میں ہاتھوں کو پہلو سے الگ اور اُنگلیاں کشادہ رکھنی چاہیئے
يَا بُنَيَّ! إِذَا رَكَعْتَ فَضَعْ كَفَّيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ، وَفَرِّجْ بَيْنَ أَصَابِعَكَ، وَارْفَعْ يَدَيْكَ عَنْ جَنْبَيْكَ۔
ترجمہ: نبی کریم ﷺنے حضرت انس بن مالک سے ارشاد فرمایا : اے میرے بیٹے ! جب تم رکوع کرو تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھو اور اپنی انگلیوں کو کشادہ رکھو اور اپنے ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھو۔ [المعجم الاوسط،جزء:۶/ص:۱۲۴، حدیث:۵۹۹۱]
رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر سیدھا جما کر اور پہلو سے الگ کر کے رکھنا چاہیے
ثُمَّ رَكَعَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَأَنَّهُ قَابِضٌ عَلَيْهِمَا، وَوَتَّرَ يَدَيْهِ فَتَجَافَى عَنْ جَنْبَيْهِ
ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی فرماتے ہیں : پھر آپ ﷺنے رکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہوں اور اپنے ہاتھوں کو سیدھا رکھا اور انہیں پہلوؤں سے الگ رکھا۔ [سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاۃ،حدیث:۷۳۴]
رکوع کی تسبیحات اور اُس کی تعداد
إذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ، فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ رُكُوعُهُ، وَذَلِكَ أَدْنَاهُ
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی رکوع کر ے اور اپنے رکوع میں تین مرتبہ یہ کہے”سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ “ تو اُس نے اپنا رکوع مکمل کرلیا ، اور یہ کم سے کم مقدار ہے ۔ [ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود،حدیث:۲۶۱]
قومہ میں اطمینان سے کھڑا ہونا
وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ، حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں : آپﷺ رکوع سے اٹھ کر جب تک سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے سجدہ نہیں کرتے تھے اور سجدہ سے اُٹھ کر جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے دوسرے سجدہ میں نہیں جاتے تھے۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ، باب مایجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔،حدیث:۴۹۸]
رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے سمع اللہ اور قومہ میں تحمید کہنا
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ: رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺجب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے پھر(قیام و قراءت سے فارغ ہوکر)جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے پھر رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“کہتے پھر کھڑے ہوکر”رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ “کہتے ۔[بخاری،کتاب الاذان،باب التکبیر اذا قام من السجود، حدیث:۷۸۹]
اگر امام کے پیچھے ہو تو صرف تحمید کہے
عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:وَإِذَا قَالَ الْإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺکا یہ ارشاد مروی ہے : جب امام ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“کہے تو تم ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ کہو ۔[سنن دارمی،کتاب الصلاۃ،باب القول بعد رفع الرأس من الرکوع،حدیث:۱۳۱۰]
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو،اور جب ’سمع اللہ لمن حمدہ‘کہے تو تم ’اللھم ربنا لک الحمد ‘کہو۔(سنن نسائی،کتاب الافتتاح ،باب تاویل قولہ عز وجل "اذا قری القرآن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون "،رقم الحدیث:۹۲۱،سنن النسائی الکبری، حدیث:۹۹۳)
رکوع میں جاتے ہوئےاور اٹھ کررفع یدین نہ کرنا
عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّى بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِى أَوَّلِ مَرَّةٍ
ترجمہ: حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا :کیا میں تم لو گوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کی طرح نماز نہ پڑھا دوں؟پھر آپ نے نماز پڑھایا تو ہاتھ نہ اٹھایا مگر صرف پہلی مرتبہ(یعنی نماز شروع کر تے وقت)۔یہ حدیث صحیح ہے۔ اور امام ترمذی نے کہا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعین اسی کے قائل ہیں۔ (تر مذی ،کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ،رقم الحدیث:۲۵۷،نسائی رقم الحدیث: ۱۰۵۸، ابوداود، رقم الحدیث: ۷۴۸،۷۴۹،مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۵۶)
عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- وَمَعَ أَبِى بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ رضى الله عنهما فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلاَّ عِنْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى فِى افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ
تر جمہ:حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :میں حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے ساتھ نماز پڑھی ،تو وہ حضرات صرف نماز کے شروع ہی میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔(سنن الدار قطنی، کتاب الصلاۃ،باب ذکر التکبیر ورفع الیدین عند الافتتاح ، حدیث :۱۱۴۴،سنن الکبری للبیھقی، ج:۲ / ص: ۷۹، حدیث:۲۳۶۵، مسند ابی یعلی الموصلی،ج:۵/ص:۳۶،مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،حدیث:۵۰۳۹)
سجدہ کرنا
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ۠" سجدہ کر اور[اپنے رب سے]قریب ہوجا۔[سورہ علق:۱۹]
سجدہ میں جانے کا طریقہ
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا اور سجدے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا ۔ [ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب السجود،حدیث:۸۸۲]
سجدہ میں زمین پر سات اعضاء رکھنے چاہیئے
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: عَلَى الْجَبْهَةِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَنْفِ، وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے:مجھے سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے : چہرہ پر اور یہ کہتے ہوئے آپ نےاپنے ہاتھ سے ناک کی جانب اِشارہ کیا ،اور دونوں ہاتھ ،گھٹنے اور پاؤں کے کناروں پر ۔ [سنن نسائی،کتاب التطبیق،باب السجود علی الیدین،حدیث:۱۰۹۷]
عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ أَطْرَافٍ: وَجْهُهُ، وَكَفَّاهُ، وَرُكْبَتَاهُ، وَقَدَمَاهُ
ترجمہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اُس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں : اُس کا چہرہ ، دونوں ہتھیلیاں،گھٹنے اور دونوں پاؤں۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ،باب اعضاء السجود والنھی عن کف الشعر والثوب وعقص الرأس فی الصلاۃ،حدیث:۴۹۱]
سجدہ میں سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھنا چاہیئے
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:۔ فَلَمَّا، سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ نبی کریم ﷺنے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان سجدہ فرمایا۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ،باب وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ بعد تکبیرۃ الاحرام الخ۔۔۔،حدیث:۴۰۱]
سجدہ میں ہاتھ کانوں کے بالمقابل ہونے چاہیئے
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکےسجدہ کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ثُمَّ سَجَدَ، فَكَانَتْ يَدَاهُ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ یعنی پھر آپﷺنے سجدہ فرمایا تو آپ کے ہاتھ آپ کے دونوں کانوں کی سیدھ میں تھے۔[مسند احمد،مسند الکوفیین،حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ، حدیث: ۱۸۸۷۸]
سجدہ میں ہاتھوں اور پاؤں کی اُنگلیوں کو قبلہ رُخ رکھنا چاہیئے
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ الْقِبْلَةَ آپ ﷺ نے سجدہ میں اپنی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھا۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب استقبال اطراف اصابع الیدین من القبلۃ فی السجود،حدیث:۶۴۳] وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ رِجْلَيْهِ إِلَى الْقِبْلَةِ آپﷺنے سجدہ میں اپنے پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف کیا۔ [صحیح ابن حبان،ج:۵/ص:۱۸۶، حدیث:۱۸۶۹]
سجدہ میں دونوں کُہنیاں زمین سے اُٹھی ہوئی ہونی چاہیئے
عن البراء بن عازب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إِذَا سَجَدْتَ فَضَعْ كَفَّيْكَ، وَارْفَعْ مِرْفَقَيْكَ ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر اور کہنیوں کو اٹھا کر رکھو ۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب وضع الکفین علی الارض ورفع المرفقین فی السجود،حدیث:۶۵۶]
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ ، وَلاَ يَسْجُدْ أَحَدُكُمْ وَهُوَ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ كَالْكَلْبِ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی سجدہ اس طرح سے نہ کرے کہ اپنے بازوں کو زمین پر کتے کی طرح بچھائے ہوا ہو۔[ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب الاعتدال فی السجود،حدیث:۸۹۲]
سجدہ میں دونوں ہاتھ پہلووں سے الگ ہونے چاہیئے
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ يَهْوِى إِلَى الأَرْضِ فَيُجَافِى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ پھر نبی کریم ﷺنے(سجدہ میں جانے کیلئے) اللہ اکبر کہا اور زمین پر سجدہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھا۔[سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاۃ،حدیث:۷۳۰]
حَدَّثَنَا أَحْمَرُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنْ كُنَّا لَنَأْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يُجَافِي بِيَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ إِذَا سَجَدَ
رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا احمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں( اور بازوؤں) کو پہلوؤں سے اتنا دور کرتے کہ ہمیں ( اس مشقت کی کیفیت کو دیکھ کر ) ترس آتا۔[ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب السجود،حدیث: ۸۸۶]
سجدہ کی تسبیحات اور اُس کی تعداد
وَإِذَا سَجَدَ، فَقَالَ فِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ سُجُودُهُ، وَذَلِكَ أَدْنَاهُ
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : جب تم میں سے کوئی سجدہ کر ے اور اپنے سجدہ میں تین مرتبہ یہ کہے : " سبحان ربی الاعلیٰ " تو اُس نے اپنا سجدہ مکمل کرلیا ، اور یہ کم سے کم مقدار ہے ۔ [ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود،حدیث:۲۶۱]
جلسہ میں سکون اور اطمینان کے ساتھ بیٹھنا
نبی کریم ﷺنے اُس شخص کو جس نے جلدی جلدی نماز پڑھی تھی ، نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا پھر سجدہ کرو اطمینان کے ساتھ ، پھر سجدہ سے اٹھو یہاں تک کہ اطمینا ن سے بیٹھ جاؤ،پھر دوسرا سجدہ اطمینان سے کرو۔[بخاری،کتاب الاذان،باب امر النبی ﷺ الذی لایتم رکوعہ بالاعادۃ،حدیث:۷۹۳]
سجدہ سے قیام میں جانے کا طریقہ
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ
ترجمہ: حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا اور سجدے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا ۔ [ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب السجود،حدیث:۸۸۲]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَضُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺنماز میں اپنے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر زور دے کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ [ترمذی،کتاب الصلاۃ،حدیث:۲۸۸]
تمام رکعات کا طریقہ پہلی رکعت کی طرح ہے
حدیثِ اعرابی میں پہلی رکعت کا مکمل طریقہ سمجھانے کے بعد آپ ﷺنے دوسری تمام رکعات کے لئے اسی طریقے کو متعین کیا ،چنانچہ فرمایا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَاپھر یہی کام اپنی ساری نماز میں کرو۔ [بخاری،کتاب الایمان والنذور،باب اذا حنث ناسیا فی الایمان،حدیث:۶۶۶۷]
دوسری رکعت میں ثناء اور تعوذ نہیں ہے
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ اسْتَفْتَحَ الْقِرَاءَةَ بِـ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَمْ يَسْكُتْ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو اَلْحَمْدُ لِلہِ سے شروع فرماتے اور (ثناء کے لئے ) خاموشی نہ فرماتے ۔[مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب مایقال بین تکبیرۃ الاحرام والقراءۃ، حدیث:۵۹۹]
ہر دو رکعت میں قعدہ کیاجائے گا
وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبی کریم ﷺہر دو رکعت میں التحیات پڑھا کرتے تھے ۔[مسلم،کتاب الصلاۃ،باب مایجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔۔،حدیث:۴۹۸]
جلسہ اور قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ
نماز میں بیٹھنا خواہ دو سجدوں کے درمیان ہو یا قعدہ میں ، اِسی طرح پہلا قعدہ ہو یا آخری سب کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بایاں پاؤں بچھاکر اُس پر بیٹھا جائے اور دایاں پاؤں اِس طرح سے کھڑا رکھا جائے کہ اُس کی اُنگلیاں قبلہ رُخ ہوں اور دونوں ہاتھ سامنے کی جانب دائیں بائیں ران پر ہوں۔احادیثِ ذیل میں اِس کی تصریح ملاحظہ فرمائیں:۔
قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا ہوا اور دایاں کھڑا ہوا ہونا چاہیئے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ أَنْ تُضْجِعَ رِجْلَكَ الْيُسْرَى ، وَتَنْصِبَ الْيُمْنَى قَالَ : وَكَانَ النَّبِيُّ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلاَةِ أَضْجَعَ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى
ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نماز کی سنت میں سے یہ ہے کہ تم اپنے بائیں پاؤں کوبچھاؤاور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھو ۔پھر فرمایا : نبی کریم ﷺجب بھی نماز میں بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب السنۃ فی الجلوس بین السجدتین ،حدیث:۶۷۹]
قعدہ میں دائیں پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیئے
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ پھر آپﷺبیٹھے اور اپنے بائیں پاؤں کو بچھایا اور دائیں پاؤں کے اگلے حصے (یعنی انگلیوں )کا رُ خ قبلہ کی طرف کیا ۔[ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب من ذکر التورک فی الرابعۃ،حدیث:۹۶۷]
قعدہ میں دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھیں
عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى
تر جمہ : حضر ت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :آپﷺ جب تشہد پڑھنے کے لئے بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے۔[مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین،حدیث:۵۷۹]
تشہد کے کلمات
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریمﷺ نےمجھے تشہد کے کلمات اس طرح سکھائے جیسے قرآن کریم کی سورت سکھاتے ہیں، اور اُس وقت میرا ہاتھ آپ کے ہاتھوں میں تھا،اور وہ تشہد کے کلمات یہ ہیں اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ [بخاری،کتاب الاستئذان،باب الاخذ بالیدین،حدیث:۶۲۶۵]
قعدہ اولی میں صرف تشہد پڑھا جائے گا
ثُمَّ إِنْ كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ نَهَضَ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي آخِرِهَا دَعَا بَعْدَ تَشَهُّدِهِ بِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہےکہ جب وہ نماز کے درمیان (یعنی قعدہ اولی میں)ہوتے تو تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجاتے اور جب نماز کے آخر(یعنی قعدہ اخیرہ میں )ہوتے تو تشہد کے بعد جتنا اللہ چاہتا ،آپ دعاء کرتے ، پھر سلام پھیر لیتے ۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب الاقتصار فی الجلسۃ الاولیٰ علی التشھد وترک الدعا بعد التشھد الاولیٰ ، حدیث:۷۰۸]
تشہد میں انگلی سے اشارہ کا طریقہ
وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا وَحَلَّقَ بِشْرٌ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ
حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریمﷺنےدو انگلیوں( یعنی چھوٹی اور اُس سے متصل انگلی) کو بند کیا اور( درمیا نی انگلی اور انگوٹھے سے )حلقہ بنایا ، اور میں نے اُن کو اس طرح اشارہ کرتے ہوئے دیکھا ہے پھر بشر نے انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا ۔[ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،رفع الیدین فی الصلاۃ،حدیث:۷۲۶]
اشارہ میں انگلی کا نہ ہلانا
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا، وَلَا يُحَرِّكُهَا»۔
حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ جب تشہد پڑھتے تو انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اُسے حرکت دیتے نہیں رہتے تھے۔[ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب الاشارۃ فی التشھد،حدیث:۹۸۹]
درود شریف
عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِى لَيْلَى قَالَ لَقِيَنِى كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ أَلاَ أُهْدِى لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقُلْتُ بَلَى ، فَأَهْدِهَا لِى . فَقَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ . قَالَ : قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
حضرت کعب بن حجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے نبی کریم ﷺسے سوال کیا : یارسول اللہ ! ہم نے آپ پر سلام کا طریقہ تو سیکھ لیا ہے ، درود کس طرح بھیجیں ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب :۱۰۔حدیث:۳۳۷۰]
عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ ، وَأَبِي عُبَيْدَةَ ، قَالاَ : قَالَ عَبْدُ اللهِ : يَتَشَهَّدُ الرَّجُلُ ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ يَدْعُو لِنَفْسِهِ
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :آدمی کو چاہیے کہ تشہد پڑھے ، پھر نبی کریم ﷺپر درود پڑھے ، پھر اپنے لئے دعاء کرے ۔[المستدرک للحاکم،کتاب الامامۃ وصلاۃ الجماعۃ،باب التامین،حدیث:۹۹۰]
دعائے ماثورہ
کوئی بھی دعا پڑھ سکتا ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُو پھر کوئی بھی پسندیدہ دعا اختیار کر کے مانگے۔[بخاری،کتاب الاذان،باب مایتخیر من الدعاء بعد التشھد،حدیث:۸۳۵]
عَنْ أَبِى بَكْرٍ الصِّدِّيقِ - رضى الله عنه - أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - عَلِّمْنِى دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِى صَلاَتِى . قَالَ :قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّى ظَلَمْتُ نَفْسِى ظُلْمًا كَثِيرًا ، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ، فَاغْفِرْ لِى مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ ، وَارْحَمْنِى ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺسے درخواست کی : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی دعاء بتلائیے جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔ آپ ﷺنے یہ دعاء تلقین فرمائی: یا اللہ بے شک میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا،اور تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں،تو تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما بے شک تو بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔[ بخاری،کتاب الدعوات،باب الدعا فی الصلاۃ،حدیث:۶۳۲۶]
سلام پھیرنا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںوَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ نبی کریم ﷺنماز کو سلام پر ختم فرمایاکرتے تھے ۔[مسلم،کتاب الصلاۃ،باب ما یجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔۔۔،حدیث:۴۹۸]
سلام دونوں جانب پھیرا جاتا ہے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ , السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺ اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرا کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ ﷺکے رخسارِ انور کی سفیدی دکھائی دیتی تھی ۔ [سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ، باب فی السلام،حدیث:۹۹۶]
نماز کے بعد دعاء
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ:قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَكْتُوبَاتِ
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺسے سوال کیا گیا کہ کون سی دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا :رات کے آخری پہراور فرض نمازوں کے بعد ۔[ترمذی،کتاب الدعوات، حدیث:۳۴۹۹]
عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : لاَ يَجْتَمِعُ مَلاَ فَيَدْعُو بَعْضُهُمْ ، وَيُؤَمِّنُ الْبَعْضُ ، إِلاَّ أَجَابَهُمُ اللَّهُ
ترجمہ: حضرت حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺکا اِرشاد فرمایا کہ: کوئی جماعت جو جمع ہو اور اُن میں سے بعض دعاء کریں اور دوسرے لوگ اُس دعاء پر آمین کہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی دعاء کو قبول فرماتا ہے [المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب ذکر مناقب حبیب بن مسلمہ الفہری،حدیث:۵۴۷۸]
ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت