صدقہ کی فضیلت



عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ ».َ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔
[ترمذی،کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقہ،حدیث:۶۶۴،۶۶۶]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ عَلَى أَهْلِهَا حَرَّ الْقُبُورِ، وَإِنَّمَا يَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ "

حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ اہلِ قبور سے گرمی کو ختم کرتا ہے اور مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے تلے ہو گا۔
[شعب الایمان،کتاب الزکاۃ،باب التحریض علی صدقۃ التطوع،حدیث:۳۰۷۶]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَاكِرُوا بِالصَّدَقَةِ، فَإِنَّ الْبَلَاءَ لَا يَتَخَطَّى الصَّدَقَةَ "

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: صدقہ دینے میں جلدی کرو کیونکہ مصیبت صدقہ سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
[شعب الایمان،کتاب الزکاۃ،التحریض علی صدقۃ التطوع، حدیث:۳۰۸۲]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔
[صحیح مسلم،کتاب البر والصلہ،باب استحباب العفو والتواضع، حدیث:۴۶۸۹،۶۵۹۲]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اﷲُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اﷲِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ. فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اﷲَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفٰی حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِيْنُهُ. وَرَجُلٌ ذَکَرَ اﷲَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس روز اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا، جس روز اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا: عادل حاکم، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا، وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے، وہ دو آدمی جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کریں اسی محبتِ الٰہی کی حالت میں دونوں اکٹھے ہوں اور اسی کی خاطر جدا ہوں، وہ آدمی جس کو حیثیت اور جمال والی عورت برائی کی دعوت دے مگر وہ یہ کہہ کرانکار کر دے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، اور وہ آدمی جو چھپا کر صدقہ کرے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں۔
[بخاری،کتاب الاذان، باب من جلس في المسجد ينتطر الصلاة وفضل المساجد، حدیث:۶۲۰،۶۶۰]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِيْقَةَ فُلَانٍ فَتَنَحّٰی ذٰلِکَ السَّحَابُ. فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِي حَرَّةٍ فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْکَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذٰلِکَ الْمَاءَ کُلَّهُ فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيْقَتِهِ يُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ اﷲِ، مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: فُلَانٌ؛ للِاِسْمِ الَّذِي سَمِعَ فِي السَّحَابَةِ. فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ اﷲِ، لِمَ تَسْأَلُنِي عَنِ اسْمِي؟ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هٰذَا مَاؤُهُ. يَقُولُ: اسْقِ حَدِيْقَةَ فُلَانٍ لِاسْمِکَ. فَمَا تَصْنَعُ فِيْهَا؟ قَالَ: أَمَّا إِذْ قُلْتَ هٰذَا، فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلٰی مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ، وَآکُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا، وَأَرُدُّ فِيْهَا ثُلُثَهُ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک مرتبہ ایک شخص نے جنگل میں بادل سے ایک آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل چل پڑا اور اس نے بجری والی زمین پر پانی برسایا، وہاں کے نالوں میں سے ایک نالہ بھر گیا، وہ شخص اس پانی کے پیچھے پیچھے گیا، وہاں ایک شخص باغ میں کھڑا ہوا اپنے پھاوڑے سے پانی کو اِدھر اُدھر کر رہا تھا، اس شخص نے باغ والے سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا وہی نام بتایا جو اس نے بادل سے سنا تھا، اس شخص نے پوچھا: اے بندئہ خدا! تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: جس بادل نے اس باغ میں پانی برسایا ہے میں نے اس بادل سے یہ آواز سنی تھی: فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ اس نے تمہارا نام لیا تھا، تم اس باغ میں کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: اب جب تم نے یہ بتایا ہے تو سنو! میں اس باغ کی پیداوار پر نظر رکھتا ہوں، اس میں سے ایک تہائی کو میں صدقہ کرتا ہوں، ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور باقی ایک تہائی کو میں اس باغ میں لگا دیتا ہوں۔
[صحیح مسلم، کتاب الزهد والرقائق، باب الصدقة في المساکين، حدیث:۵۲۹۹ ، ۲۹۸۴،۷۴۷۳]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْئٍ مِنَ الْأَشْيَائِ فِي سَبِيلِ اﷲِ، دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ يَعْنِي الْجَنَّةَ: يَا عَبْدَ اﷲِ، هٰذَا خَيْرٌ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّيَامِ، وَبَابِ الرَّيَانِ. فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: مَا عَلٰی هٰذَا الَّذِي يُدْعٰی مِنْ تِلْکَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ. وَقَالَ: هَلْ يُدْعٰی مِنْهَا کُلِّهَا أَحَدٌ يَارَسُولَ اﷲِ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَکْرٍ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے تو اسے (اس کے عمل کے مطابق) جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا، (اُسے کہا جائے گا:) اے اللہ کے بندے! (اس دروازے سے داخل ہونا تمہارے لئے) بہتر ہے۔ پس جو کوئی نمازیوں میں سے ہوگا، اسے باب الصلاۃ سے بلایا جائے گا۔ جو مجاہد ہے اسے باب الجھاد سے، جو خیرات کرتا ہے اسے باب الصدقۃ سے اور جو روزے رکھے گا اسے باب الریان سے بلایا جائے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ان دروازوں میں سے جس کو بھی بلایا جائے گا ایک خاص ضرورت اور سبب کے تحت بلایا جائے گا۔ پھر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کیا کوئی ایسا بھی ہے جسے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اے ابوبکر! مجھے یقین ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو۔
[صحیح بخاری،کتاب المناقب،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکنت متخذا خلیلا، حدیث: ۳۳۹۳،۳۶۶۶]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوْا نيَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلٰی سَارِقٍ. فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدَي زَانِيَةٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلٰی زَانِيَةٍ. فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، عَلٰی زَانِيَةٍ؟ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوْا يَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ عَلٰی غَنِيٍّ. فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی سَارِقٍ، وَعَلٰی زَانِيَةٍ، وَعَلٰی غَنِيٍّ. فَأُتِيَ، فَقِيلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُکَ عَلٰی سَارِقٍ: فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ، وَأَمَّا الزَّانِيَةُ: فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا، وَأَمَّا الْغَنِيُّ: فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ، فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اﷲُ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے کہا کہ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ صدقہ کرنے کی غرض سے (رات کو) مال لے کر نکلا اور اس نے ایک چور کو دے دیا۔ صبح لوگ باتیں کرنے لگے کہ چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو وہ عرض گزار ہوا کہ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا اور بدکار عورت کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگوں نے چرچا کیا کہ آج رات بدکار عورت پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا تو ایک مالدار کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ غنی پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، (افسوس کہ) چور، زانیہ اور غنی پر صدقہ کر بیٹھا! پھر اُسے لایا گیا تو اس سے کہا گیا: تم نے چور کو جو صدقہ دیا تو شاید وہ چوری کرنے سے رک جائے اور بدکار عورت، شاید وہ بدکاری سے باز آ جائے اور مالدار شاید عبرت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو مال دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے۔
[صحیح بخاری، کتاب الزکاة، باب إذا تصدق علی غني وهو لا يعلم، حدیث:۱۳۳۲،۱۴۲۱]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے ،تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔
[صحیح بخاری،کتاب الزکاۃ،باب الصدقۃ من کسب طیب،حدیث:۱۴۱۰،۱۳۲۱]

عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ انْطَلَقَ أَحَدُنَا إِلَى السُّوقِ فَيُحَامِلُ فَيُصِيبُ الْمُدَّ وَإِنَّ لِبَعْضِهِمْ الْيَوْمَ لَمِائَةَ أَلْفٍُ

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے لوگ بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد[غلہ یا کھجور وغیرہ] حاصل کرتے۔ [جسے صدقہ کر دیتے]لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ [درہم یا دینار]موجود ہیں۔
[صحیح بخاری،کتاب الزکاۃ،باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ والقلیل من الصدقۃ ،حدیث:۱۴۱۶ ،۱۳۲۷]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِك عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَكَلَ مِنْهُ إِنْسَانٌ أَوْ دَابَّةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگاتا ہے اور اس درخت سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ ہوتا ہے۔
[صحیح بخاری، کتاب الادب،باب رحمۃ الناس والبھائم،حدیث:۶۰۱۲،۵۵۵۳]

عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا ثُمَّ ذَكَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا ثُمَّ قَالَ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کا ذکر کیا اور چہرہ مبارک پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی۔ پھر جہنم کا ذکر کیا اورچہرہ مبارک پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی۔ اس کے بعد فرمایا کہ جہنم سے بچو صدقہ دے کر، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے، جسے یہ بھی نہ ملے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہہ کر۔
[صحیح بخاری، کتاب الرقاق،باب صفۃ الجنۃ والنار،حدیث:۶۵۶۳،۶۰۷۸]

عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحَى

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے۔ پس ہر ایک تسبیح [ایک دفعہ سبحان اللہ کہنا] صدقہ ہے۔ ہر ایک تحمید [الحمد للہ کہنا] صدقہ ہے، ہر ایک تہلیل[لا إله إلا اللہ کہنا] صدقہ ہے، ہر ایک تکبیر [اللہ اکبر کہنا] بھی صدقہ ہے۔ کسی کونیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور کسی کو برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ اور ان تمام امور کی جگہ چاشت کی دو رکعتیں کفایت کرتی ہیں۔[یعنی چاشت کی دو رکعت پڑھ لینے سے ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ ادا ہو جاتا ہے]۔
[صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب استحباب صلاۃ الضحیٰ۔۔۔۔۔،حدیث:۱۶۷۱،۱۱۸۱]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ فَقَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى وَلَا تُمْهِلَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا أَلَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا صدقہ [اجر میں] بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم [اس وقت] صدقہ کرو جب تم تندرست ہو اور مال کی خواہش رکھتے ہو فقر سے ڈرتے ہو اور تونگری کی امید رکھتے ہو اور اس قدر تاخیر نہ کرو کہ جب [تمہاری جان] حلق تک پہنچ جائے [پھر]تم کہو: اتنا فلاں کا ہے اور اتنا فلاں کا۔ اب تو وہ فلاں[وارث] کا ہو ہی چکا ہے۔
[صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب بیان ان افضل الصدقۃ صدقۃ الصحیح الشحیح ،حدیث:۱۷۱۳،۲۳۸۲]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان انتقال کر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے [وہ منقطع نہیں ہوتے] صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔
[صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ ،باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ،حدیث:۴۲۲۳،۳۰۸۴]

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - يَقُولُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَوْمًا أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالاً عِنْدِى فَقُلْتُ الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَا أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ ». قُلْتُ مِثْلَهُ.قَالَ وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ - رضى الله عنه - بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَا أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ ». قَالَ أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. قُلْتُ لاَ أُسَابِقُكَ إِلَى شَىْءٍ أَبَدًا.

حضرت زید بن اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی، میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جا سکوں گا تو آج کا دن ہو گا، چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: اسی قدر یعنی آدھا مال، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، تب میں نے[دل میں] کہا: میں آپ سے کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں بڑھ سکوں گا۔
[سنن ابوداؤد،کتاب الزکاۃ،باب فی الرخصۃ فی ذلک،حدیث:۱۶۷۸،۱۶۸۰]

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَىُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ « الْمَاءُ ». قَالَ فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ هَذِهِ لأُمِّ سَعْدٍ.

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ام سعد[میری ماں] انتقال کر گئیں ہیں تو کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی۔ راوی کہتے ہیں: چنانچہ حضرت سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: یہ ام سعد کا ہے۔[یعنی اس کا ثواب ام سعد رضی اللہ عنہا کے لئے ہے]۔
[سنن ابوداؤد،کتاب الزکاۃ،باب فی فضل سقی الماء ،حدیث:۱۶۸۳ ،۱۶۸۱]

عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « (أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ) قَالَ يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِى مَالِى وَإِنَّمَا مَالُكَ مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ ».

حضرت مطرف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏"ألهاكم التكاثر * حتى زرتم المقابر"کثرت و زیادتی[کی چاہت نے] تمہیں غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔آپ نے فرمایا: ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال ۔ لیکن حقیقت میں تمہارا مال تو صرف وہ ہے جو تم نے کھاپی کر ختم کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ اور پرانا کر دیا یا صدقہ کر کے اسے آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔
[سنن نسائی،کتاب الوصایا،باب الکراھیۃ فی تاخیر الوصیۃ،حدیث:۳۶۴۳،۳۶۲۸]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- إِنَّ أَبِى مَاتَ وَتَرَكَ مَالاً وَلَمْ يُوصِ فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ قَالَ « نَعَمْ ».

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرے والد انتقال کر گئے اور مال بھی چھوڑ گئے ہیں،اور کوئی وصیت نہیں کیا۔ تواگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کےگناہ معاف ہوں گے[اور ان کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گا؟] آپ نے فرمایاکہ " ہاں"۔
[سنن نسائی،کتاب الوصایا،باب فضل الصدقۃ عن المیت،حدیث:۳۶۶۷،۳۶۸۲]

عَنْ أَبِى ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « تَبَسُّمُكَ فِى وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِى أَرْضِ الضَّلاَلِ لَكَ صَدَقَةٌ وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِىءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِى دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ ».

حضرت ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔
[ترمذی،کتاب البر والصلہ،باب ماجاء فی صنائع المعروف،حدیث:۱۹۵۶، ۲۰۸۳]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ , تُوبُوا إِلَى اللهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا ، وَبَادِرُوا بِالأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوا ، وَصِلُوا الَّذِي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ بِكَثْرَةِ ذِكْرِكُمْ لَهُ ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ فِي السِّرِّ وَالْعَلاَنِيَةِ ، تُرْزَقُوا وَتُنْصَرُوا وَتُجْبَرُوا۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو! مرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو، اور مشغولیت سے پہلے نیک اعمال میں سبقت کرو، جو رشتہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے اسے جوڑو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو خوب یاد کرو، اور خفیہ و اعلانیہ طور پر زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرو، تمہیں تمہارے رب کی جانب سے رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری گرتی حالت سنبھال دی جائے گی۔
[سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ،باب فی فرض الجمعہ،حدیث:۱۰۸۱]

عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ ، قَالَ : كُنَّا نُسَمَّى فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ السَّمَاسِرَةَ ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ ، فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ ، فَقَالَ : يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ الْحَلِفُ وَاللَّغْوُ ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ.

حضرت قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں "سماسرہ" [دلال] کہے جاتے تھے، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا، تو آپ نے ہمارا ایک ایسا نام رکھا جو اس سے اچھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت میں قسمیں اور لغو باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، تو تم اس میں صدقہ ملا دیا کرو۔
[سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التوقی فی التجارۃ،حدیث:۲۱۴۵]

عَنْ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ ، وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ ، فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.

حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے صدقہ کا ثواب ملے گا۔
[سنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات، باب انظار المعسر،حدیث:۲۴۱۸]

عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللهِ ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لاَ يَحِلُّ مَنْعُهُ ؟ قَالَ : الْمَاءُ ، وَالْمِلْحُ ، وَالنَّارُ ، قَالَتْ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ ، هَذَا الْمَاءُ قَدْ عَرَفْنَاهُ ، فَمَا بَالُ الْمِلْحِ وَالنَّارِ ؟ قَالَ : يَا حُمَيْرَاءُ مَنْ أَعْطَى نَارًا ، فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَا أَنْضَجَتْ تِلْكَ النَّارُ ، وَمَنْ أَعْطَى مِلْحًا ، فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَا طَيَّبَتْ تِلْكَ الْمِلْحُ ، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ ، حَيْثُ يُوجَدُ الْمَاءُ ، فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَةً ، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ ، حَيْثُ لاَ يُوجَدُ الْمَاءُ ، فَكَأَنَّمَا أَحْيَاهُ.

حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سی ایسی چیز ہے جس کا روکنا جائز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانی، نمک اور آگ، میں نے کہا: ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! پانی تو ہمیں معلوم ہے کہ اس کا روکنا جائز اور حلال نہیں۔ لیکن نمک اور آگ کیوں جائز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے حمیراء! جس نے آگ دی گویا اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جو اس پر پکا، اور جس نے نمک دیا گویا اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جس کو اس نمک نے مزے دار بنایا، اور جس نے کسی مسلمان کو جہاں پانی ملتا ہے، ایک گھونٹ پانی پلایا گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ ایک گھونٹ پانی پلایا جہاں پانی نہ ملتا ہو گویا اس نے اس کو نئی زندگی بخشی۔
[سنن ابن ماجہ، کتاب الرھون،باب المسلمون شرکاء فی ثلاث،حدیث:۲۴۷۴]

عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ ، لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ.

حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو، جو تمہارے پاس آ گئی ہو اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔
[سنن ابن ماجہ، کتاب الادب،باب بر الوالد والاحسان الی البنات،حدیث:۳۶۶۷]




متعلقہ عناوین



ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت زکوٰۃ دینے کی فضیلت زکوٰۃ نہ دینے کی مذمت قربانی کی فضیلت



دعوت قرآن