عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا.َُ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومنوں میں سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق ان سب سے بہتر ہے۔
[سنن ابوداود،کتاب السنۃ،باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ،حدیث: ۴۶۸۴]
عَنْ عَائِشَةَ رَحِمَهَا اللَّهُ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مومن شخص اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے روزہ دار اور تہجد گزار کے مقام کو پالیتا ہے۔
[سنن ابوداود،کتاب الادب،باب فی حسن الخلق،حدیث: ۴۸۰۰]
عَنْ أَبِى الدَّرْدَاءِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: مَا مِنْ شَىْءٍ أَثْقَلُ فِى الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ.
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : میزان (ترازو) میں سب سے زیادہ وزنی چیز حسن اخلاق ہے ۔
[سنن ابوداود،کتاب الادب،باب فی حسن الخلق،حدیث: ۴۸۰۱]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلاَقًا ». وَلَمْ يَكُنِ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- فَاحِشًا وَلاَ مُتَفَحِّشًا.
حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں طبعا فحش گو تھے اور نہیں تکلفاََ۔
[جامع ترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی الفحش والتفحش،حدیث: ۲۱۰۳
]
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِىَ لَهُ فِى رَبَضِ الْجَنَّةِ وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِىَ لَهُ فِى وَسَطِهَا وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِىَ لَهُ فِى أَعْلاَهَا.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے جھگڑا اور تکرار کرنا چھوڑ دیا اور وہ باطل تھا اس کے لئے جنت کے کنارے ایک مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا چھوڑا اور وہ حق پر تھا اس کے لئے جنت کے بیچ میں ایک گھر بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اخلاق اچھے کئے اس کے لئے ایک گھر جنت کے اعلی ٰ درجہ میں بنایا جائے گا۔
[جامع ترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی المراء ،حدیث: ۲۱۲۴]
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّةَ فَقَالَ « تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ ». وَسُئِلَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ فَقَالَ « الْفَمُ وَالْفَرْجُ ».
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیاکہ کیا چیز زیادہ تر لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی؟ فرمایا اللہ عزوجل سے ڈرنا اور حسن اخلاق ۔اور پوچھا گیاکہ کیا چیز زیادہ تر لوگوں کو دوزخ میں داخل کرے گی؟ فرمایا : منہ اور فرج (شرم گاہ)۔
[جامع ترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی حسن الخلق ،حدیث: ۲۱۳۵]
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَىَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّى مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلاَقًا وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَىَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّى مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ وَالْمُتَفَيْهِقُونَ ». قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ فَمَا الْمُتَفَيْهِقُونَ قَالَ « الْمُتَكَبِّرُونَ ».
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں، اور میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور وہ لوگ ہوں گے جو باتونی، بلااحتیاط بولنے والے، زبان دراز اور تکبر کرنے والےہیں۔صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے [ثرثارون] باتونی[ اورمتشدقون ]بلااحتیاط بولنے والے کو تو جان لیا لیکن [متفيهقون] کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: تکبر کرنے والے۔
[جامع ترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی معالی الاخلاق ،حدیث: ۲۱۵۰]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ لَيِّنٍ سَهْلٍ ».
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے۔
[جامع ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،باب منہ ۴۵ ،حدیث: ۲۴۸۸،۲۴۷۶]
عَنْ أَبِي يَحْيَى ، مَوْلَى جَعْدَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ : قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ فُلاَنَةَ تُصَلِّي اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ وَفِي لِسَانُهَا شَيْءٌ يُؤْذِي جِيرَانَهَا سَلِيطَةٌ ، قَالَ : لاَ خَيْرَ فِيهَا هِيَ فِي النَّارِ وَقِيلَ لَهُ : إِنَّ فُلاَنَةَ تُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَتَصَدَّقُ بِالأَثْوَارِ وَلَيْسَ لَهَا شَيْءٌ غَيْرُهُ وَلاَ تُؤْذِي أَحَدًا قَالَ : هِيَ فِي الْجَنَّةِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت رات کو قیام کرتی ہے، دن کو روزہ رکھتی ہے[ صدقہ و خیرات کرتی ہے اور دیگر امور خیر کرتی ہے] لیکن ہمسائیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے، ]ایسی عورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟[ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی عورت میں تو کوئی خیر نہیں، یہ تو جہنمی ہے۔“ اس کے بعد اس نے کہا: فلاں عورت صرف فرض نمازیں ادا کرتی ہے اور پنیر کے ٹکڑوں کا صدقہ کرتی ہے، لیکن کسی کو تکلیف نہیں دیتی،[اس کے بارے میں کیا ہے؟ ]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ جنتی عورت ہے۔
[المستدرک للحاکم،کتاب البر والصلۃ، حدیث: ۷۳۰۴۔مسند احمد،مسند ابی ھریرۃ، حدیث:۹۶۷۳۔صحیح ابن حبان،باب الغیبۃ،ذكر الاخبار عما يجب على المرء من ترك الوقيعة في المسلمين وان كان تشميره في الطاعات كثيرا،حدیث:۵۷۶۴]
عن ابن مسعود قال: لا يزال أربعون رجلاً من أمتي، قلوبهم على قلب إبراهيم، يدفع الله بهم عن أهل الأرض، يقال لهم: الأبدال، ثم قال - صلى الله عليه وسلم: إنهم لم يدركوها بصلاة، ولا بصوم، ولا صدقة)قالوا: يا رسول الله فبم أدركوها؟ قال: بالسخاء والنصيحة للمسلمين۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میری امت میں ہمیشہ چالیس ایسے لوگ ہوں گے جن کا دل ابراہیم علیہ السلام کے دل پر ہوگا،اللہ ان کی برکت سے زمین والوں سے تکلیف دور فرمائے گا،ان کو ابدال کہا جائے گا۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ اس مرتبے پر نماز،روزہ اور صدقہ کی وجہ سے نہیں پہونچیں گے۔کہا گیا کہ پھر کس وجہ سے وہ لوگ اس مقام کو پائیں گے؟ فرمایا: سخاوت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے۔
[المعجم الکبیر للطبرانی، ۱۰/ ۱۸۱]
عَنِ الزُّهْرِىِّ قَالَ أَخْبَرَنِى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَامَ أَعْرَابِىٌّ فَبَالَ فِى الْمَسْجِدِ فَتَنَاوَلَهُ النَّاسُ ، فَقَالَ لَهُمُ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « دَعُوهُ وَهَرِيقُوا عَلَى بَوْلِهِ سَجْلاً مِنْ مَاءٍ ، أَوْ ذَنُوبًا مِنْ مَاءٍ ، فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ » .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی کھڑا ہوکر مسجد میں پیشاب کرنے لگا تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔[یہ دیکھ کر]حضورﷺ نے فرمایا چھوڑو جانے دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے وہاں ایک بھرا ہوا پانی کا ڈول بہادو۔ کیونکہ تم لوگوں پر آسانی کرنے کو بھیجے گئے ہو ،تم سختی کرنے کو نہیں بھیجے گئے۔
[الصحیح البخاری،کتاب الوضوء،باب صب الماء علی البول فی المسجد،حدیث:۲۲۰]
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ رِدَاءٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عُنُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍٍ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ جارہا تھا اور آپ ﷺ اس دوران ایک نجرانی قسم کی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے۔ اچانک ایک اعرابی آیا اور اس نے آپ ﷺ کی چادر مبارک زور سے کھینچی۔ میں نے دیکھا اس کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا۔ پھر کہنے لگا۔ اے محمد ﷺ آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم دیجئے۔ رسول اکرم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوکر ہنسے اور اس کو مال دینے کا حکم دیا۔
[الصحیح المسلم،کتاب الزکاۃ،باب اعطاء من سأل بفحش وغلظۃ،حدیث:۱۷۴۹]
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ۔۔۔۔۔۔۔۔فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَرْجُفُ فُؤَادُهُ ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رضى الله عنها فَقَالَ « زَمِّلُونِى زَمِّلُونِى » . فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ « لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِى » . فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَقْرِى الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ .
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ۔[یہ غار حرا سے متعلق ایک لمبی حدیث ہے جس میں یہ بیان ہے کہ جب پہلی بار غار حرا میں حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم] س حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
[الصحیح البخاری،کتاب بدء الوحی،باب منہ،حدیث:۳]
عن سعد بن هشام بن عامر قال أتيت عائشة فقلت يا أم المؤمنين أخبريني بخلق رسول الله صلى الله عليه و سلم قالت : كان خُلُقُه القُرآنَ أما تقرأ القرآن قول الله عز و جل [ وإنك لعلي خلق عظيم ]
حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے۔انہوں نے فرمایا: ان کا اخلاق قرآن تھا۔کیا تم نے اللہ عزوجل کا قول نہیں پڑھا "اور بے شک ائے محبوب آپ کا اخلاق عظیم ہے"
[مسند احمد،باقی مسند الانصار،حدیث السیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا،حدیث:۲۴۶۴۵]
حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ إِسْحَقُ قَالَ أَنَسٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا فَأَرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَذْهَبُ وَفِي نَفْسِي أَنْ أَذْهَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِهِ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي قَالَ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ يَا أُنَيْسُ أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ أَنَا أَذْهَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَنَسٌ وَاللَّهِ لَقَدْ خَدَمْتُهُ تِسْعَ سِنِينَ مَا عَلِمْتُهُ قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا أَوْ لِشَيْءٍ تَرَكْتُهُ هَلَّا فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا
اسحاق نے کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں اخلاق کے سب سے اچھے تھے، آپ نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جاؤں گا۔ حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا۔ تو میں چلا گیا حتیٰ کہ میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا، وہ بازار میں کھیل رہے تھے، پھر اچانک میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میری گردن سے مجھے پکڑ لیا، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:اے چھوٹے انس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں جانے کو میں نے کہا تھا؟ میں نے کہا جی! ہاں، اللہ کے رسول! میں جا رہا ہوں۔حضرت انس کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نو سال تک خدمت کیا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کوئی کام کیا تو حضور نے یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور کوئی کام چھوڑ دیا تو یہ کہا ہو کہ تم نے یہ کیوں نہیں کیا۔
[الصحیح المسلم،کتاب الفضائل، باب کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احسن الناس خلقا،حدیث:۴۲۷۲۔۶۰۱۵]
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : إِذَا لَقِيَ الرَّجُلَ فَكَلَّمَهُ ، لَمْ يَصْرِفْ وَجْهَهُ عَنْهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْصَرِفُ ، وَإِذَا صَافَحَهُ ، لَمْ يَنْزِعْ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْزِعُهَا ، وَلَمْ يُرَ مُتَقَدِّمًا بِرُكْبَتَيْهِ جَلِيسًا لَهُ قَطُّ.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کسی شخص سے ملاقات ہوتی اور آپ اس سے بات کرتے تو اس وقت تک منہ نہ پھیرتے جب تک وہ خود نہ پھیر لیتا، اور جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑ دیتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلاتے۔
[سنن ابن ماجہ،کتاب الادب، باب اکرام الرجل جلیسہ،حدیث:۳۷۱۶ ۔ترمذی،حدیث:۲۴۹۰ ]
عَنْ عَلِي قَالَ قَالَ لِيْ النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّم: ألا أدُلُّك على أكرمِ أخلاقِ الدنيا والآخرةِ ؟ أن تصِلَ من قطعَك، وتُعطي مَن حرمَكَ، وأن تعفُوَ عمن ظلمَكَ۔
سیدنا مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں دنیا اور آخرت کے بہترین اخلاق کے بارے میں نہ بتادوں؟ [پھر ارشاد فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ] تم اسے جوڑو جو تمہیں کاٹے،تم اسے عطا کرو جو تمہیں محروم کرے اور تم اسے معاف کردو جو تم پر ظلم کرے۔
[المعجم الاوسط، جزء:۵، من اسمہ محمد،حدیث:۵۵۶۷]
ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت زکوٰۃ دینے کی فضیلت زکوٰۃ نہ دینے کی مذمت صدقہ کی فضیلت قربانی کی فضیلت خدمت خلق کی فضیلت