َُحَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ الْوَلِيدُ بْنُ الْعَيْزَارِ أَخْبَرَنِى قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِىَّ يَقُولُ حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَشَارَ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - أَىُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ « الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا » . قَالَ ثُمَّ أَىُّ قَالَ « ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ » . قَالَ ثُمَّ أَىُّ قَالَ « الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ » . قَالَ حَدَّثَنِى بِهِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِى .
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کون سا کام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے پوچھا پھر کون ساکام۔ فرمایا ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا کام ۔فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے یہ تین باتیں بیان کیں۔ اگر میں اور پوچھتا تو آپ اور زیادہ بیان فرماتے۔
[الصحیح البخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ،باب فضل الصلاۃ لوقتھا،حدیث:۵۲۷]
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رِضَا اللهِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ، وَسَخَطُ اللهِ فِي سَخَطِ الْوَالِدَيْنِ "
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا رب کی خوشی والد ین کی خوشی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد ین کی ناراضگی میں ہے۔
[شعب الایمان،بر الوالدین ، حدیث : ۷۴۴۶]
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِمْتُ فَرَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ فَسَمِعْتُ صَوْتَ قَارِئٍ يَقْرَأُ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا هَذَا حَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَاكَ الْبِرُّ كَذَاكَ الْبِرُّ وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّهِ
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں۔ تو وہاں میں نے ایک قاری کو سنا جو قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ اس کے بعد سیدہ عائشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:نیکی کا صلہ ایسا ہی ہوتا ہے،نیکی کا صلہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ دراصل وہ اپنی ماں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتے تھے۔
[مسند احمد،حدیث السیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا،حدیث:۲۴۰۷۰]
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أسْتَشِيرُهُ فِي الْجِهَادِ، قَالَ: " أَلَكَ وَالِدَةٌ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " اذْهَبْ فَأَكْرِمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ عِنْدَ رِجْلَيْهَا "
حضرت معاویہ بن جاھمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا [میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے]حضور سے مشورہ لینے حاضر ہوا ہوں۔ حضور صلی اللہ نے فرمایا: تیری ماں ہے؟ عرض کی ہاں،تو فرمایا کہ چلے جاؤ اور ان کی خدمت کو لازم کرلو بے شک جنت ان کے قدموں کے پاس ہے۔
[شعب الایمان،بر الوالدین،حدیث:۷۴۴۸]
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْوَالِدُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، أَوْ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، احْفَظْ ذَلِكَ أَوْ ضَيِّعْهُ "
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے یا جنت کا بیچ والا دروازہ ہے۔اب تو چاہے تو اس کی حفاظت کر یا اس کو برباد کر لے۔
[شعب الایمان،بر الوالدین،حدیث:۷۴۶۳]
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُمِدَّ اللهُ فِي عُمْرِهِ، وَيَزِيدَ فِي رِزْقِهِ، فَلْيَبَرَّ وَالِدَيْهِ، وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ "
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں درازگی دے اور اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے اسے چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
[شعب الایمان،بر الوالدین،حدیث:۷۴۷۱]
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّةً مَبْرُورَةً "، قَالُوا: وَإِنْ نَظَرَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ ؟ قَالَ: " نَعَمْ، اللهُ أَكْبَرُ وَأَطْيَبُ "
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب اولاد اپنے والدین کی طرف محبت سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر نظر کے بدلے اسے ایک مقبول حج کا ثواب عطا فر ماتا ہے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ! اگرچہ دن بھر میں سو مرتبہ دیکھے؟(یعنی تو کیا اسے سومقبول حج کا ثواب ملے گا؟)آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں! اللہ سب سے بڑا ہے اور اطیب ہے ۔
[شعب الایمان،بر الوالدین،حدیث:۷۴۷۲]
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِيمًا فَهَلْ لِى مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ « هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ ». قَالَ لاَ. قَالَ « هَلْ لَكَ مِنْ خَالَةٍ ». قَالَ نَعَمْ. قَالَ: فَبِرَّهَا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ آپ نے پوچھا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
[جامع الترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی بر الخالۃ،حدیث:۲۰۲۷]
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِى قَالَ « أُمُّكَ » . قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ « أُمُّكَ » . قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ « أُمُّكَ » . قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ : ثُمَّ أَبُوكَ ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔
[الصحیح البخاری،کتاب الادب،باب من احق الناس بحسن الصحبۃ،حدیث:۵۹۷۱]
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا ؟ قَالَ : هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں تمہارے لئے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی۔
[سنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب بر الوالدین، حدیث:۳۶۶۲]
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ». قِيلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ : مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے ۳/ مرتبہ یہ فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو پوچھا گیا اے اللہ کے رسول وہ کون شخص ہے؟ فرمایا جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوا۔
[الصحیح المسلم،کتاب البر والصلۃ والادب،باب رغم انف من ادرک ابویہ۔۔، حدیث:۶۶۷۴]
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَصْبَحَ مُطِيعًا فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَمَنْ أَمْسَى عَاصِيًا لِلَّهِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ النَّارِ، وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا " قَالَ الرَّجُلُ: وَإِنْ ظَلَمَاهُ ؟ قَالَ: " وَإِنْ ظَلَمَاهُ، وَإِنْ ظَلَمَاهُ، وَإِنْ ظَلَمَاهُ "
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کے لئے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ایک شخص نے عرض کیا کہ :اگرچہ اس کے ماں باپ اس پر ظلم کریں ؟آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں۔
[شعب الایمان،فصل فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما،حدیث:۷۵۳۸]
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِى بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَلاَ أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ». قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ ». قَالَ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ « وَشَهَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَوْلُ الزُّورِ ». فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ.
حضرت عبد الرحمن بن ابو بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتادوں؟ صحابہ نے عرض کیا:ہاں!ضرور یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺنے فرمایا:اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،ماں باپ کی نافرمانبرداری کرنا،راوی کہتے ہیں: آپ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا:اور جھوٹی گواہی دینا، یا جھوٹی بات کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا:کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
[جامع الترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی عقوق الوالدین،حدیث:۱۹۰۱]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو - رضى الله عنهما - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ » . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ « يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ ، وَيَسُبُّ أَمَّهُ ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے ۔صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ! کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟آپ ﷺ نے فر مایا:ہاں اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔
[الصحیح البخاری،کتاب الادب،باب لایسب الرجل والدیہ،حدیث:۵۹۷۳]
عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ قَدِمَتْ أُمِّى وَهْىَ مُشْرِكَةٌ فِى عَهْدِ قُرَيْشٍ وَمُدَّتِهِمْ ، إِذْ عَاهَدُوا النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - مَعَ أَبِيهَا ، فَاسْتَفْتَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - فَقُلْتُ إِنَّ أُمِّى قَدِمَتْ وَهْىَ رَاغِبَةٌ { أَفَأَصِلُهَا } قَالَ « نَعَمْ صِلِى أُمَّكِ ۔
حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:وہ کہتی ہیں کہ:جس زمانے میں قریش نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے معاہدہ کیا تھا، میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی ،میں نے عرض کیا کہ :یارسول اللہ ﷺ!میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے ،کیا میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟آپ ﷺنے فرمایا:اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
[الصحیح البخاری،کتاب الادب،باب صلۃ المرأۃ امھا ولھا زوج،حدیث:۵۹۷۹]
عَنْ أَبِى أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ السَّاعِدِىِّ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِى سَلِمَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَقِىَ مِنْ بِرِّ أَبَوَىَّ شَىْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا قَالَ : نَعَمِ الصَّلاَةُ عَلَيْهِمَا وَالاِسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِى لاَ تُوصَلُ إِلاَّ بِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا.
حضرت ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ قبیلہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ :یارسول اللہ ﷺ! میرے والدین انتقال کر چکے ہیں تو کیا اب بھی ان کے ساتھ احسان کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟آپ ﷺنے فر مایا:ہاں! ان کے لئے دعا و استغفار کرنا ،اور جوانہوں نے عہد کیا تھا اس کو پورا کرنا ،اور جس رشتہ والے کے ساتھ انہیں کی وجہ سے سلوک کیا جا سکتا ہو اس کے ساتھ سلوک کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔
[سنن ابوداود،کتاب الادب،باب فی بر الوالدین،حدیث:۵۱۴۴]
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْمَرْءِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّىَ.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک نیکیوں میں سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
[سنن ابوداود،کتاب الادب،باب فی بر الوالدین،حدیث:۵۱۴۵]
ِّعَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : كُلُّ الذُّنُوبِ يُؤَخِّرُ اللَّهُ مَا شَاءَ مِنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلاَّ عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُعَجِّلُهُ لِصَاحِبِهِ فِي الْحَيَاةِ قَبْلَ الْمَمَاتِ.
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:سب گناہوں کی سزا اللہ تعالی چاہے تو قیامت تک ٹال دیتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا مرنے سے پہلے دنیا ہی میں پہنچا تا ہے۔
[المستدرک للحاکم،کتاب البر والصلۃ،حدیث:۷۲۶۳]
عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَى الْمَرْأَةِ ؟ قَالَ : زَوْجُهَا قُلْتُ : فَأَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَى الرَّجُلِ ؟ قَالَ : أُمُّهُ ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کے شوہر کا۔میں نے کہا: مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا۔
[المستدرک للحاکم،کتاب البر والصلۃ،حدیث:۷۲۴۴]
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَاقٌّ ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلَا مَنَّانٌ "
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا،ہمیشہ شراب پینے والا اور احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
[شعب الایمان، فصل فی عقوق الوالدین وماجاء فیہ،حدیث:۷۴۹۰]
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، فَأَمَّا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: فَالْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ، وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ تَشَبَّهُ بِالرِّجَالِ، وَالدَّيُّوثُ ، وَأَمَّا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ لَا يَنْظُرُ اللهُ إِلَيْهِمْ: فَالْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ، وَمُدْمِنُ خَمْرٍ، وَالْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى "
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رحمت کی نظر نہیں فرمائے گا اور تین لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔وہ تین لوگ جو جنت میں داخل نہیں ہوں گے[یہ ہیں] والدین کی نافرمانی کرنے والا، مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتیں اور دیوث [یعنی وہ مرد جو اپنے گھر کی عورتوں میں بے حیائی اور برائی دیکھ کر بھی خاموش رہے] اور وہ تین جن کی طرف اللہ تعالیٰ رحمت کی نظر نہیں فرمائے گا۔والدین کی نافرمانی کرنے والا،ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔
[شعب الایمان، فصل فی عقوق الوالدین وماجاء فیہ،حدیث:۷۴۹۳]
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « كَانَ رَجُلٌ فِى بَنِى إِسْرَائِيلَ ، يُقَالُ لَهُ جُرَيْجٌ ، يُصَلِّى ، فَجَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ ، فَأَبَى أَنْ يُجِيبَهَا ، فَقَالَ أُجِيبُهَا أَوْ أُصَلِّى ثُمَّ أَتَتْهُ ، فَقَالَتِ اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ الْمُومِسَاتِ . وَكَانَ جُرَيْجٌ فِى صَوْمَعَتِهِ ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ لأَفْتِنَنَّ جُرَيْجًا . فَتَعَرَّضَتْ لَهُ فَكَلَّمَتْهُ فَأَبَى ، فَأَتَتْ رَاعِيًا ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَلَدَتْ غُلاَمًا ، فَقَالَتْ هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ . فَأَتَوْهُ ، وَكَسَرُوا صَوْمَعَتَهُ فَأَنْزَلُوهُ وَسَبُّوهُ ، فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلاَمَ ، فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلاَمُ قَالَ الرَّاعِى . قَالُوا نَبْنِى صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ . قَالَ لاَ إِلاَّ مِنْ طِينٍ .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور [غصے میں] بددعا کر گئیں، اے اللہ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے (جو جریج کے عبادت خانے کے پاس اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ۔کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔ لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا۔ بچے! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا! (قوم خوش ہو گئی اور کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھر تو مٹی ہی سے بنے گا۔
[الصحیح البخاری،کتاب المظالم،باب اذا ھدم حائطا فلیبن مثلہ،حدیث:۲۴۸۲]
ایمان علامات ایمان محبت الٰہی محبت رسول ﷺٰ صدق نبوت کے دلائل تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبرکات نبوی ﷺٰ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت عظمت اہل بیت وصحابہ قبر میں پیش آنے والے حالات قیامت کی نشانیاں حقوق العباد علم دین کی فضیلت قرآن مجید کی عظمت وفضیلت تعلیم قرآن کی فضیلت علم غیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات انبیاء علیہم السلام اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بدعت سماع موتیٰ ایصال ثواب گستاخوں کی پہچان نماز کی فضیلت ترک نماز کی مذمت سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت رفع یدین امام کے پیچھے تلاوت نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق نماز کے بعد دعا روزہ کی فضیلت ترک روزہ پر وعیدیں حج وعمرہ کی فضیلت ترک حج کی مذمت زکوٰۃ دینے کی فضیلت زکوٰۃ نہ دینے کی مذمت صدقہ کی فضیلت قربانی کی فضیلت خدمت خلق کی فضیلت حسن اخلاق کی فضیلت